غلط کیا ہے

788

شیخ رشید احمد اور لال حویلی آج سے نہیں چار عشروں سے راولپنڈی کی سیاست کا ایک اہم مرکز سمجھی جاتی ہے‘ اسے کئی بار خالی کرانے کی کوشش ہوئی تاہم کامیابی نہیں ملی‘ اب نگران حکومت کے دور میں پرانے معاملے کو نئے سرے سے چھیڑا گیا اور اس بار لال حویلی خالی کرا لی گئی‘ گویا قبضہ چھڑا لیا گیا‘ اس کیس میں جو قانون کہتا ہے ہونا وہی چاہیے لیکن جہاں تک قبضوں کی بات ہے‘ قبضہ تو خیر اس ملک میں بہت سی چیزوں پر ہوا ہے‘ جمہوریت بھی چاہتی ہے اور بلکہ دلی خواہش مند ہے کہ اسے بھی واگزار کرایا جائے‘ لیکن ایک ہی لمحے میں دو خبریں پڑھنے کو ملی ہیں‘ کہ شیخ رشید احمد سے لال حویلی خالی کرا لی گئی اور دوسری خبر یہ کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے بھائی کو گریڈ بائیس کی ملازمت کے مساوی اسلام آباد میں رہائش فراہم کر دی گئی‘ سادہ لفظوں میں یہ بات کہ ایک سے چھت چھین لی گی اور دوسرے کو چھت فراہم کردی گئی۔ چھت کی فراہمی اچھی بات ہے مگر یہ کام کس قیمت پر ہوا؟ کیا قانون قاعدہ، رولز، سب پس پشت ڈال کر یہ کام ہوا‘ یا اس کام کے کرنے کے لیے قانون قاعدہ اور رولز کو پس پشت ڈالنا ضروری تھا۔
سیاست اور جمہوریت سے چھت تو خیر اکتوبر 1958 میں بھی چھینی گئی تھی‘ بس اس کے بعد پھر یہ کام طغیانی کی مانند بڑھتا رہا اور جمہوریت اس طغیانی میں تنکے کی مانند کہیں بہہ گئی ہے‘ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے خواجہ آصف کو رات کے آخری پہر کسی بڑی شخصیت کو فون کرکے اپنے انتخابی حلقے کے نتائج واگزار کرانا پڑتے ہیں‘ یہ کام اکیلے خواجہ آصف نے کوئی کیا ہے؟ جنرل مشرف آئے تو انہوں نے سیاست دانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا‘ سب سے پہلے میاں اظہر کو شرف ملاقات بخشا‘ اسی روز راجا ظفر الحق کو بھی ملاقات کے لیے بلاوا بھیجا‘ جنرل مشرف نے راجا ظفر الحق سے کہا کہ آگے بڑھیں‘ مسلم لیگ کی لگام ہاتھ میں لیں اور کہا کہ انتخابات کی تیاری کریں اور اسی ملاقات میں انہیں پیش کش کیا کی؟ یہی کہ جسے وہ چاہیں گے وہی اسمبلی میں آئے گا‘ مطلب قبضہ ابھی تک انہی کے پاس ہے۔ راجا ظفر الحق نے صاف صاف انکار کردیا‘ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ ملک میں انتخابات ہوئے تو نتائج وہی تھے جو مطلوب تھے‘ وہی جیتے جنہیں جتوانا مقصود تھا‘ کوئی ابہام نہیں کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کو جو سیاسی رول ملا وہ رول اس وقت کی کسی ایک بڑی شخصیت نے ہی طے کیا تھا‘ یہ بھی طے کرلیا گیا تھا کہ میاں اظہر کامیاب نہیں ہوں گے اور پھر ایسا ہی ہوا‘ یہ بھی طے کرلیا گیا تھا کہ راجا ظفر الحق کو ان کے انکار کی قیمت چکا نا پڑے گی‘ میاں اظہر لاہور اور شرق پور سے ہار گئے اور راجا ظفر الحق راولپنڈی سے ہار گئے۔
ہمارے ملک میں انتخابات کی بھی ایک اپنی ہی تاریخ ہے‘1970 کے انتخابات ایک مخصوص حالات میں ہوئے اور نتائج بھی تباہ کن رہے۔ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی اور ہر ڈبے سے بھٹو نکل رہا تھا‘ پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی انتخابات کا بائی کاٹ کیا تو پولنگ اسٹیشن پر ایسا ہو کا عالم تھا کہ انسان تو کیا کسی جانور نے بھی پولنگ اسٹیشن کا رخ نہیں کیا‘ 1985 کے انتخابات ہوئے تو غیر جماعتی انتخابات کی وجہ سے اسمبلی میں برادری ازم کا رنگ چڑھ گیا‘ یہ جمہوریت پر قبضے کی ایک نئی شکل تھی‘ 1988 اور 1990 کے عام انتخابات ملک میں سیاسی معرکہ آرائی کی ایک نئی شکل تھے‘ ایک جانب آئی جے آئی اور دوسری پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادی‘ دونوں جانب کی لگام ایک ہی ہاتھ میں تھی‘ 1993 کے انتخابات میں پاکستان اسلامک فرنٹ ایک نئی سیاسی قوت کی حیثیت سے اسٹیک ہولڈر بنا‘ انتخابی نتائج آئے تو نواز شریف کو منہ کی کھانا پڑی‘ اس کے بعد ملک میں 1997 اس کے بعد 2002 پھر 2008 اس کے بعد 2913 اور اب تک کے آخری انتخابات 2018 میں ہوئے‘ ان انتخابات کے نتائج سے متعلق تحریک انصاف سے پوچھ لیجیے‘ کس کے ہاتھ سے قبضہ لے کر کس طرح نظام حکومت عمران خان کے سپرد کیا گیا‘ لیکن جس نے قبضہ دیا اس نے عمران خان کے نام کا بینک کائونٹ کھول کر چیک بک اپنے ہاتھ ہی میں رکھی۔
ملک میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے سب کے اپنے مخصوص حالات اور نتائج تھے اور انہی کی بنیاد پر نتائج مرتب کیے گئے۔ اگلے عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے کا اعلامیہ جاری کیا ہے لیکن… ہتھیلی پر سرسوں کیسے جمائی جائے گی؟ یہ الیکشن کمیشن نے نہیں بتایا اور نہ یہ بتایا ہے کہ نو من تیل ہے کہ انتخابات کی رادھا ناچ سکے… بس یوں سمجھ لیجیے جس کی لاٹھی اس کی بھینس… انتخابات کے لیے فی الحال انتظار فرمائیے۔ انتخابات تب ہوں گے جب سیاست دانوں کی پرانی فصل سے لال حویلیاں خالی کرا لی جائیں گی اور ملک میں سیاست دانوں کی ایک نئی فصل اگ جائے گی… بس یاد رکھیے نیب اپنے دانت تیز کر چکا ہے اور کون کون اس کی زد میں آئے گا‘ دیکھتے جائیے۔