انتخابات: دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

757

امریکا بادشاہ کا حکم لے کر اُس کے پرنسپل اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ برائے جنوبی اور وسط ایشیا الزبتھ ہورسٹ نے کہا کہ امریکا پاکستان میں ایسے منصفانہ انتخابات کی حمایت جاری رکھے گا جو انتشار سے پاک ہوں اور لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دیں کہ ان پر حکمرانی کون کرے گا۔ منصفانہ انتخابات ہی پاکستان سے بحران کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ مسیحا معیشت کہلانے والے ایشیائی ترقیاتی بینک نے حکومت پاکستان کو نسخہ بتاتے ہوئے امریکا کی تائید کی کہ انتخابات کے انعقاد ہی سے پاکستان کی معیشت سنبھل سکتی ہے، یعنی لٹیروں کے احتساب کو چھوڑو انتخابات کی راہ لو، اور رہا خرچہ پانی کا سوال اس کا حل الزبتھ ہورسٹ نے انتخابات کے ساتھ یہ نتھی کیا کہ پاکستان عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات پر عمل درآمد کر رہا ہے کیوں کہ بیمار معیشت کو مستحکم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے سو، حکم حاکم مرگ مفاجات، پر عمل درآمد کرتے ہوئے نگراں منکر نکیر حضرات نے قیمتوں میں اضافہ کے پھندے کے ساتھ عوام الناس کا گلا گھوٹنا شروع کررکھا ہے مگر وہ بھولے ہوئے ہیں کہ کہنے والے کہہ گئے ہیں کہ جتنا انہیں دبائو گے یہ احتجاج اتنا ہی ابھرے گا۔ جماعت اسلامی کے ملک گیر عظیم الشان دھرنے اس کا ثبوت ہیں۔ رہا حکم انتخابات کا کڑوا نسخہ وہ بھی آنکھ میچ کر پیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا کہ ہم اس کی تیاری کا کام پہلی فرصت میں نمٹا کر جنوری 2024ء کے آخر میں کرادیں گے۔ یعنی اعلان کی تاریخ کے 90 دن بعد نئے سال میں! رہا آئین کے اسمبلی توٹنے کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا حکم اس کی تو پامالی ہوچکی، اس کا تذکرہ ہی کیا مٹی پائو۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ اعلان انتخابات بھی دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کے مصداق ہے۔ نیب کو پھر تازہ دم کرنے والے چیف جسٹس بندیال کے حکم نامے کے بعد اب نیب کو حسب خواہش چلانے کے لیے اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا۔ پراسیکیوٹر اور ڈپٹی چیئرمین نیب استعفے دے چکے ہیں۔ باخبر حلقے بتارہے ہیں کہ ان سے استعفے ایک خفیہ ادارے کے دفتر میں بلا کر لیے گئے ہیں اور اب نیب کے اندر فوج کے اعلیٰ افسران کو لائے جانے اور ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کراکر مضبوط کیس کا اہتمام کرکے ان کو سزا دلانا مقصود ہے جن کو ماضی کے حوالے سے اب تک کی لوٹ کھسوٹ کے حوالے سے بچہ بچہ جانتا ہے تا کہ عوام کا غصہ ٹھنڈا ہو اور وہ آنے والے سال کی مہنگائی جو ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق 25 فی صد ہوگی کو باآسانی قبول کرلیں۔ کیا یہ احتساب ایک سہ ماہی میں ہوسکے گا، پون صدی کا گند تو دور کی بات ہے پندرہ سالہ دور کا احتساب بھی ممکن نہ ہوسکے گا۔ سو آئین کی گردان کرنے والوں کی جنہوں نے خوب ملک کو نوچا اور لوٹا ہے کی گردن ناپنے کا پلان تو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ آئین کی دفعہ 63,62 کی چھلنی سے چھان کر ان تمام کو نکال باہر کیا جائے جو آئین کی 63,62 شق پر عمل نہ کیے جانے کی بنا پر اسمبلیوں میں پہنچتے رہے اور عدالت عالیہ تک کو کہنا پڑا کہ اس شق کی کسوٹی پر ارکان کو پرکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی ہی پورا اترتے ہیں۔ اس کڑی پڑتال کو دیکھ کر ہی انتخابات کا نعرہ لگانے والی پارٹیاں جن کو اقتدار کا نشہ ہے بھاگ کھڑی ہوں گی اور کچھ ولی خان کی طرح احتساب کے بعد انتخابات کا مطالبہ کرکے انتخابات سے جان چھڑائیں گی۔
ویسے بھی ایک خیال یہ ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جن کی پاکستان آمد جلد متوقع ہے اور بھاری سرمایہ کاری کی امید ہے وہ آئے اور پاکستان کے دامن کو ڈالروں سے بھر دیا تو پھر فروری 24ء میں آئی ایم ایف سے قسط کے سلسلے میں مذاکرات ناک گھسیٹنے والے نہ رہیں گے۔ اور یوں انتخابات کا امریکی دبائو بھی عدالت عظمیٰ سے رجوع کرکے اس مرحلے کو آگے لے جانے کی تدبیر ہوسکتی ہے، کچھ باخبر حلقے دو سال تک کے التوا کی بات کررہے ہیں، پی پی پی نے الیکشن کمیشن کے جنوری 24ء کے گونگے اعلان کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ تاریخ کیوں نہیں دی اور آئین کا لائحہ عمل سی ای سی کے اجلاس میں طے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے اعلامیہ کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ جو اقتدار کے حوالے سے نیم دروں نیم بروں ہے اس کے ترجمان احس اقبال نے کہا ہے کہ اس سے بے یقینی کا خاتمہ ہوگا۔ دراصل مسلم لیگ (ن) کو جو اقتدار کا دلاسہ ملا تھا اور وہ اس سے نہال تھی اور نواز شریف کی ملک آمد کی تاریخ 21 اکتوبر کا بھی اعلان کرچکی تھی، اس دلاسے کو مبینہ طور پر کمزوری سمجھ کر نواز شریف نے باجوہ، فیض حمید اور 24ء میں بننے والے چیف جسٹس کو پرویز مشرف کی طرح عدالت میں لانے کی بات کرکے معاملہ کو کھٹائی میں ڈال دیا اور پھر ایک پیغام سخت گیا تو شہباز شریف اور مریم نواز کو بلا بھیجا اور وہ لندن جا پہنچے۔ ویسے ایک حلقہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار نہیں اور پی پی پی بھی سیاسی موسم دیکھ کر پہلوتہی چاہتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن استغراق کے عالم میں ہیں کہ عمران خان کے خلاف سب کچھ کر گزرنے کے باوجود وہ کسی کھاتے میں نہیں۔ ماہ جنوری شدید سردی کا موسم پاکستان میں ہوتا ہے اور انتخابات کی تاریخ میں کبھی ماہ جنوری میں انتخابات نہیں ہوئے سو، الیکشن کمیشن کا اعلان دل سے میل نہیں کھاتا ہے۔ دیکھیں دست غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ ملک کی معیشت کی بحالی کا انتخاب ہوتا ہے یا ملک میں انتخابات کا۔