ہم حسب ِ معمول بابا جی کے ساتھ ان کی پیشی پر گئے تھے، مگر بابا جی خلاف معمول خوش دکھائی دے رہے تھے، آنکھوں میں معنی خیز چمک اور چہرہ کھلا کھلا تھا، ہم نے پوچھا بابا جی کیا آپ کا پرائز بانڈ نکل آیا ہے، کہنے لگے بات تو کچھ ایسی ہی ہے، پرائز بانڈ تو نہیں نکلا مگر درِ انصاف کھل گیا ہے انصاف کی سب سے اونچی مسند پر خدا کا نائب براجمان ہو گیا ہے، چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار سے عمر عطاء بندیال تک انصاف کے طلب گاروں نے آبلہ پائی کے تمام مرحلے طے کر لیے ہیں، اب میرے پیارے وطن کی سر زمین گلابوں سے ڈھک جائے گی، ہر گلی ہر کوچہ معطر ہو جائے گا، انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی اتر جائے گی اور قانون اب گونگا بہرہ نہیں رہے گا، جج اور جسٹس صاحبان کی گردنوں پر رکھا ہوا بار کونسل کا بوجھ بھی اتر جائے گا۔ اسی اثناء میں آواز پڑ گئی اور بابا جی کمرہ عدالت میں چلے گئے واپس آئے تو پہلے سے زیادہ خوش دکھائی دے رہی تھے، ہم نے پوچھا کہ بابا جی ہر بار پیشی پڑنے پر آپ پر مایوسی کا دورہ پڑ جاتا ہے مگر اس بار آپ پیشی پڑنے پر خوش دکھائی دے رہے ہیں، کہنے لگے کہ مخالف وکیل نے ایک ہفتہ کی پیشی مانگی تھی، جسٹس صاحب نے ریڈر کو فائل دے کر حاضریوں سے متعلق کوئی سوال کیا، معلوم ہوا کہ مخالف وکیل دس سال میں دس بار بھی پیش نہیں ہوا، یہ جان کر جج صاحب نے دس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا اور ایک ہفتے کے بجائے چھے ہفتے کی پیشی دے دی گئی مگر بابا جی خوش تھے، پیشی پڑنے پر نہ بلڈ پریشر کی گولی کھائی نہ عدالتی روئے پر تبصرہ کیا، ہمیں حیرت زدہ دیکھ کر کہنے لگے، میں نے پہلے ہی کہا تھا جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان بن جائیں گے تو انصاف کی دیوی آزاد ہو جائے گی، پیشی در پیشی کا اذیت ناک کھیل بند ہو جائے گا اور لیفٹ اوور کا ہتھوڑا بھی ٹوٹ جائے گا۔
کہتے ہیں کہ کسی معاملے کے بارے میں یہ سوچنا کہ ایسا ہوا تو فائدہ مند ہوگا یا نقصان دہ شرکِ خفی ہے اور کسی معاملے کو نیک شگون یا بد شگونی کا سبب بنے گا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو بد شگونی ہے، یہ شرک جلی ہے، بابا جی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے وہ سوچا کرتے تھے کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس بن گئے تو انصاف کے طلب گاروں کو فائدہ ہوگا، اگرچہ ان کے مقدمہ کا فیصلہ تو نہ ہوا مگر جسٹس صاحب کا رویہ ان کے لیے خوش گوار تھا، انہیں توقع ہے کہ جلد ہی انہیں فٹ پاتھ پر سونے سے نجات مل جائے گی، کیونکہ بابا جی کی عمر دھکے کھانے کی نہیں اللہ اللہ کرنے کی ہے۔
اگر معاملہ ایطائے خفی یا ایطائے جلی کا ہوتا تو کسی شاعر سے مشورہ کرتے مگر بات شرکِ خفی و شرکِ جلی کی ہے اس معاملے میں کسی عالم ِ دین سے ہی مشورہ کیا جاسکتا ہے مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ شاعروں کی طرح سارے علماء بھی تلمیذ الرحمن نہیں ہوتے البتہ یہ بات طے ہے کہ ایطائے خفی یا ایطائے جلی سے شعر شاعری کے دائرہ سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ ایطائے خفی اور ایطائے جلی ایک وبا کی طرح شعراء کو اپنی لپیٹ میں لینے کا کوئی موقع نہیں گنواتا، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس مرض سے غالب محفوظ رہے نہ میر تقی میر بچے، سبھی اس وبا میں مبتلا رہے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایطائے خفی و ایطائے جلی سے کسی بھی شاعر کا کلام محفوظ نہیں رہا تو اس کا کیا جواز بنتا ہے یوں بھی پانی کھڑا رہے تو کیچڑ بننے لگتا ہے، پانی کو کیچڑ بننے سے بچانے کے لیے اس کے بہائو میں رکاوٹ کو دور کرنا چاہیے، ایطائے خفی و ایطائے جلی سے درگزر کیا جائے، یوں بھی شعر کی خوبی یہ ہے کہ سماعت سے ٹکراتے ہی دل میں اتر جاتا ہے، جو شعر دل میں نہیں اترتا وہ ہر عیب سے پاک ہونے کے باوجود شعریت کا حامل نہیں ہوتا خیر چھوڑیے جلی اور خفی کے چکر کو، ہم بات کررہے تھے بابا جی کے مقدمہ کی جس نے بابا جی کی پون صدی تباہ کر دی، مگر بابا جی کو یقین ہے کہ نظام عدل کی غلام گردشوں نے اگر چیف جسٹس آف پاکستان کے گرد اپنی گردشوں کا جال نہ بنا تو ایک دو پیشیوں میں عدالت کے کٹہرے سے نکل کر انصاف کی کھلی فضا میں سانس لینے سے انہیں کوئی نہیں روک سکے گا، خدا کرے ایسا ہی ہو، ہمیں یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا، کیونکہ چیف جسٹس پاکستان فائز عیسیٰ جدی پشتی قاضی ہیں۔