ستمبر پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس ماہ کی مناسبت سے بہت کچھ لکھا جاتا ہے اگر ابتدا سے دیکھیں تو بانی پاکستان محمد علی جناح کا یوم وفات اس مہینے کی 11 تاریخ کو ہے یہ محض ایک وفات نہیں ہے اس دن قوم عملاً یتیم ہوگئی اور اب تک عملاً یتیم خانے میں پڑی ہے۔ اس کے نام پر چندے ہوتے ہیں تصویریں کھینچی جاتی ہیں، اس کے نام پر عمارتیں بنتی ہیں، ہر عمارت کا ایک مہتمم ہوتا ہے، اس کی بڑی تنخواہ اور اس کی بھاری مراعات ہوتی ہیں یتیم خانے کے لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ان ہی پر ٹیکس لگایا جاتا ہے، ان کے نام پر ملک کے اندر اور باہر سے چندے ہوتے ہیں اور یہ سب کرنے والے مزے میں رہتے ہیں۔ قوم یتیموں کی سی زندگی گزارتی ہے۔ دوسرا بڑا واقعہ 1965ء کی جنگ ہے جس میں بھارت جیسی بڑی طاقت سے پاکستانی فوج اور قوم نے مل کر دفاع کیا اور بھارت کے منصوبے ناکام بنائے۔ ہم ہر سال اس دفاع کی یاد مناتے ہیں اور اب صرف یاد مناتے ہیں یہ یاد نہیں رہا کہ دفاع کیسے کرتے ہیں۔ اسی مہینے کا ایک بڑا واقعہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا سانحہ ارتحال ہے۔ ان کی موت طبعی ہوئی اور وہ موت سے قبل امت مسلمہ کو اپنے اسلاف کے پیغام سے جوڑنے کا سارا کام کرگئے۔ قرآن سے رشتہ جوڑا آسان ترجمہ کیا آسان تفسیر لکھی زندگی کے ہر موضوع پر ہر مسئلے پر کتاب لکھی چھوٹے چھوٹے مسائل پر رسائل و مسائل مرتب کیے بڑے مسائل پر کتابیں لکھیں۔ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب اور قائداعظم نے برملا کہا کہ برصغیر میں دو قومیں رہتی ہیں ایک مسلم اور دوسری ہندو انہوں نے دو قوموں کا ذکر کیا اس بنیاد پر علٰیحدہ وطن کا مطالبہ کیا اور مولانا مودودیؒ نے دو قومی نظریہ پر تحریر لکھی جو پورے ہندوستان میں تقسیم کی گئی کہ ہندو اور مسلم کیسے الگ الگ قوم ہیں۔ علامہ کا خواب حقیقت میں بدلنے والے قائداعظم کی وفات ستمبر میں، قائداعظم کے معتمد سید مودودیؒ کی وفات بھی ستمبر میں قائد نے انہیں اسلامی ریاست کے خدوخال بیان کرنے کے لیے ریڈیو پاکستان پر تقریروں کا حکم دیا اور ستمبر میں قائد کی وفات کے صرف ایک ماہ بعد مولانا مودودیؒ کی تقریریں ریڈیو پر روک دی گئیں۔ بظاہر یہ سب معمولی باتیں ہیں لیکن علامہ اقبال کے تصور پاکستان، قائداعظم کے وژن سید مودودیؒ کی فکر کو ایک جگہ ہونے نہیں دیا گیا یقینا اس سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی جو یہاں اسلامی نظام نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی ماہ ستمبر میں اب سے 11 برس قبل کراچی میں بلدیہ ٹائون فیکٹری کا سانحہ پیش آیا۔ آج تک اس کی تفتیش اور پیشیاں ہورہی ہیں کچھ مرنے والوں کے ورثا بھی مرچکے، ایک فیکٹری بند ہوئی، یہ سب کچھ ہوا اور اب پاکستانی قوم ہر چیز کی برسی مناتی ہے یاد مناتی ہے تقریبات کرتی ہے جلسے جلوس ہوتے ہیں بھارت کو کھری کھری سنائی جاتی ہے یہ کام حکومت اور عوام دونوں کرتے ہیں۔ فوج کا کام کشمیر آزاد کرانا اور حکومت کا کام اس کی آزادی کے لیے پالیسی طے کرنا ہے لیکن دونوں تقریبات مناتے ہیں یوم دفاع کیوں تھا قوم کو یہ بتانے کے بجائے فلمی ستارے اور دیگر ہیرو تقریبات کی زینت بنتے ہیں اور یوم قائداعظم اب محض مزار پر گارڈز کی تبدیلی تک محدود ہے۔ ہمارے پاس آخری چیز علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کی فکر ہے ان کا کام ہے کتابیں ہیں ہمیں عمل کرنا ہے تقریبات نہیں منانیں۔ قوم تقریبات مناتی رہے اور ملک کو یتیم خانہ اور قوم کو یتیم بنانے والے پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتیں اور اپنی مراعات بڑھاتے رہیں تو شاید آنے والے دنوں میں یتیم بھی نہیں ملیں گے۔ سب سے پہلے تو لوگ سماجی ذرائع ابلاغ کے تماشوں سے نکلیں اس کے بعد نام نہاد مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کے سحر سے نکلیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ حکمران طبقہ اپنے طور طریقے نہ بدلے اور قوم سے کہا جائے کہ اپنے طور طریقے بدلے۔ اسمبلیاں، سیکرٹریٹ، وزرائے اعلیٰ و اعظم ہائوسز، گورنر ہائوسز، ایوان صدر، ججوں، جرنیلوں، وزرا، ارکان قومی اسمبلی کی مراعات مفت بجلی، مفت پٹرول، مفت ٹیلی فون، گاڑیاں، ملازمین یہ سب تو ایک طبقے کے لیے ہوں اور جن کے نام پر ہو انہیںڈرا ڈرا کر رکھا جائے کہ نادہندہ ہوجائیں گے، آئی ایم ایف نے یہ شرط رکھی ہے اور وہ شرط رکھی ہے اور ان پر اس خوف کو مسلط کرکے نیا ٹیکس تھوپ دیا جاتا ہے۔ اس سال ستمبر میں جماعت اسلامی ملک بھر میں اور کراچی جماعت اسلامی خصوصاً عمل کی دنیا میں موجود ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول اور مہنگائی کے خلاف آواز اٹھارہی ہے احتجاج کررہی ہے دھرنے دے رہی ہے عوام اب ان احتجاجوں، دھرنوں اور آوازوں کو تحریک بنادیں تو ان کے اپنے لیے اچھا ہوگا۔ اس ستمبر کو ان ستمگروں کے لیے عذاب بنادیا جائے۔