اسمگلنگ کیا ہوتی ہے؟ یہ سوال ہمارے جیسے کم علم لوگوں کے ذہن میں آتا ہے۔ لہٰذا ہم نے اس کے بارے میں معلومات کی کوشش کی تو پتا چلا کہ خلاف قانون درآمد برآمد یعنی چوری چھپے سامان باہر سے لانے یا لے جانے کے کام کو اسمگلنگ کہتے ہیں۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ نقصان دہ کیوں ہے، آخر تجارت کی طرح کی چیز ہی تو ہے تو پتا چلا کہ اسمگلنگ درحقیقت ملکوں کی معیشت کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسمگلنگ اور دہشت گردی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ ایک دوسرے کا لازمی حصہ ہیں، دہشت گرد تنظیمیں ہر طرح کے اسمگلرز کے ساتھ قریبی گٹھ جوڑ رکھتی ہیں۔ اس میں سب سے پہلی چیز منشیات کی اسمگلنگ ہے، کیونکہ اس کو اسمگل کرنا آسان ہوتا ہے اور حاصل ہونے والی رقم بہت ہی بلند مقدار میں ہوتی ہے جو دہشت گرد تنظیموں کو طاقت بخشتی ہیں۔ پھر اس کے بعد تیل، گندم، چینی اور دیگر ضرورت کی اشیا جاتی ہیں بس جو چیز اندرون ملک سستی اور بیرون ہیں مہنگی ہوتی ہے اس کو باہر اسمگل کیا جاتا ہے اور جو چیز اندرون ملک مہنگی اور بیرون ملک سستی ہوتی ہے اس کو اندر اسمگل کردیا جاتا ہے یہ سب غیر قانونی طور پر کیا جائے تو اسے اسمگلنگ کہتے ہیں لیکن یہی کام قانونی طور پر کیا جائے تو اس کو تجارت کہتے ہیں۔ خبریں ہیں کہ اسمگلنگ کا خاتمہ آرمی چیف کے آئندہ لائحہ عمل میں نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسمگلنگ میں ملوث افراد کو ملک بدر کریں گے ویسے یہ بھی کوئی سزا ہوئی؟ آج کل تو یوں بھی لوگ ملک سے بھاگ ہی رہے ہیں ابھی کچھ دن قبل ہی یونانی کشتی حادثے میں بڑی تعداد میں پاکستانی ہلاک ہوئے تھے اس وقت ہلاک ہونے والے پاکستانی شہریوں کے رشتے دار جہاں غم سے نڈھال تھے وہاں ہر ایک کی زبان پر یہ سوال تھا کہ سرکاری ادارے انسانی اسمگلنگ کو روکنے میں کیوں ناکام ہیں؟ سوال یہ ہے کہ اسمگلرز کو سزا دینے کے لیے ملک بدر کردینا سزا کی کوئی قسم ہے یا جزا کی؟
انٹیلی جنس ادارے رپورٹ کررہے ہیں کہ کرنسی اور تیل کے بعد چینی، گندم اور کھاد کی اسمگلنگ ہورہی ہے اور اس میں سرکاری افسران اور سیات دان ملوث ہیں۔ کچھ لوگ مزید طاقتور حلقوں اور بااثر عناصر کو بھی اس فہرست میں شامل کرتے ہیں جو اربوں روپے اس اسمگلنگ کے ذریعے کما رہے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی تو صاف صاف کہتے ہیں کہ ایرانی اشیا کی اسمگلنگ پاکستان کے بارڈر گارڈز کی نگرانی میں ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی وزارت کے دور میں انہیں یوں صاف صاف کہنے اور انہیں سختی سے روکنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ دوسری صاف صاف بات بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان محمد بلیدی کرتے ہیں (انہیں بھی اپنے وقت میں صاف بات کرنے کے بجائے بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کی دھن ہوتی ہوگی)۔ کیونکہ وہ ایرانی اشیا کی اسمگلنگ کو سرحدی تجارت کے زمرے میں گردانتے ہیں۔ کہتے ہیں تربت سے کوئٹہ جو گاڑیاں تیل لے کر آتی ہیں ان سے ایف سی، لیویز، کسٹم اور دوسرے حکام بھاری رشوت لیتے ہیں۔ ایران سے سرحدی تجارت عشروں سے چل رہی ہے، نظام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن بھی کی گئی ہے، چھے سو گاڑیوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ایران سے تیل لے کر آئیں جس کے لیے باقاعدہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ٹوکن جاری کیا جاتا ہے۔ 15 لاکھ لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ غیر قانونی کیسے ہوسکتی ہے؟ بات وہیں آکر اٹک جاتی ہے کہ یہ اسمگلنگ کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسوں کے بغیر ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کے ذریعے انفرادی طور پر بااثر افراد اربوں کما جاتے ہیں اور ملکی خزانے میں کچھ جمع نہیں ہوتا، یوں ریاست کو نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں اسمگلنگ کے باعث 270 ارب کا سالانہ نقصان ہورہا ہے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے 70 ارب کم یعنی 200 ارب روپے کا قرض آئی ایم ایف نے ناک رگڑوا کر (بقول وزیراعظم) پاکستان کو دیا تھا۔ یہ بات بھی نظر میں رہے کہ اسمگلنگ کے باعث ہونے والا نقصان پاکستان کے کل سالانہ ترقیاتی بجٹ کا آدھا حصہ ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان ہی سے سیکھنے کی ضرورت ہے جہاں سرحدوں پر کنٹرول کے ذریعے مجموعی آمدنی کا 69 فی صد حصہ وصول کیا گیا اور اب کسٹم کا شعبہ افغان حکومت کی آمدنی کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔