کینیڈا، بھارت سفارتی تنائو

798

بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے براہ راست الزام عائد کیا ہے کہ جون 2023ء میں خالصتان کے حامی سکھ رہنما پردیپ سنگھ نجار کے قتل میں بھارتی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ملوث ہے۔ کینیڈا کی حکومت نے بھارت کے سفارت کار کو ’’را‘‘ کا عہدیدار قرار دے کر ملک بدری کا حکم دے دیا ہے، جس کے جواب میں بھارتی حکومت نے کینیڈین سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ کینیڈا اور بھارت کے درمیان کشیدگی کئی ماہ سے چل رہی تھی۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان کشیدگی اور تنائو کا سبب سکھوں کی ریاست خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد ہے۔ کینیڈا اور آسٹریلیا میں بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں اور سیاسی طور پر بااثر بھی ہیں۔ کینیڈا میں مقیم سکھ تنظیموں کی جانب سے خالصتان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کی وجہ سے جسٹن ٹروڈو اور نریندر مودی کے درمیان تنائو پیدا ہوگیا تھا۔ ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد خالصتانی سکھ رہنما پردیپ سنگھ نجار کو قتل کردیا گیا تھا۔ وزیراعظم کینیڈا کی جانب سے خالصتانی سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کو ملوث قرار دیا گیا تھا۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے سکھ رہنما کے قتل کو اپنے ملک کی خودمختاری کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے اس معاملے کو دہلی میں منعقد ہونے والی جی 20 کانفرنس میں بھی اٹھایا تھا جس کی وجہ سے مودی، ٹروڈو تنائو دنیا کے سامنے آشکار ہوگیا۔ کینیڈا کی حکومت کے مطابق سکھ رہنما کے قتل کے بارے میں بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں اور ان شواہد سے امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کی حکومتوں کو آگاہ بھی کیا گیا ہے۔ کینیڈا کی حکومت کے دعوے کے مطابق خفیہ معلومات امریکا کے ساتھ مل کر حاصل کی گئی ہیں۔ مودی، ٹروڈو تنازع کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی مذاکرات بھی معطل ہیں۔ کینیڈا میں ایک سکھ رہنما کے قتل میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا الزام حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر آیا ہے۔ یہ ایک اہم شہادت ہے کہ بھارت کی حکومت عالمی سطح پر دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اس حقیقت سے پوری مغربی دنیا بھی واقف ہے لیکن اپنی حکومتوں کے مفادات کی وجہ سے بھارت کی دہشت گردی سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کو بین الممالک تعلقات میں کلیدی نکتہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے لیے ایسا واقعہ کوئی حیرت انگیز انکشاف نہیں ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر ’’را‘‘ کا ایک افسر کلبھوشن یادیو گرفتار ہوا تھا۔ جو اب بھی حراست میں موجود ہے، اس نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی حدود میں دہشت گرد افراد اور گروہوں کو منظم کرتا رہا ہے۔ مغربی حکومتیں اور ان کے ادارے نریندر مودی کی تاریخ سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ بھارتی صوبہ گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے ذمے دار بھی نریندر مودی قرار دیے گئے تھے۔ امریکی حکومت نے وزیراعلیٰ گجرات کو اپنے صوبے میں قتل عام کا ملزم قرار دے کر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے مودی کو گجرات کا قسائی بھی قرار دیا تھا۔ لیکن عالمی سیاست کی مصلحتوں نے انسانی حقوق کی پامالی کے مجرم کو عالمی رہنما کے طور پر قبول کرلیا۔ یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس جاری ہے۔ اس اجلاس سے قبل بھارت کے دارالحکومت دہلی میں بڑی معیشتوں کے سربراہان جی 20 کانفرنس کے پلیٹ فارم پر جمع ہوئے تھے، جی 20 کے اجلاس کے دوران میں بھی ٹروڈو اور مودی کا اختلاف سامنے آیا تھا۔ اس کا سبب بھی تارکِ وطن سکھوں کی جانب سے اپنے آزاد وطن خالصتان کے حق میں سیاسی تحریک اور ریفرنڈم کا انعقاد تھا۔ کینیڈا مغربی دنیا کا حصہ ہے، اس لیے دنیا کے بڑے اور طاقتور ممالک امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کینیڈا کی حکومت کی تشویش کو نظر انداز نہیں کرسکتے، لیکن ان کی عالمی مصلحتیں بھارت کے جرائم سے غض بصر کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس مسئلے نے دنیا کے سامنے یہ حقیقت بھی عیاں کردی ہے کہ بھارت کی اقلیتیں کن حالات میں رہ رہی ہیں۔ آبادی کے نقطہ نظر سے بھارت کو سب سے بڑی جمہوریت قرار دینا ایک فریب ہے، بھارت کے پاس کوئی مشترکہ نکتہ نہیں ہے جو لسانی، صوبائی اور مذہبی شناختوں کو ختم کرکے برابری کی بنیاد پر ایک قوم بنادے۔ سکھوں کی صورت حال سے پستی میں دھکیل دی جانے والی دِلت آبادی کے حالات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے حالات کو تو سب ہی نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ اب ایک مغربی ملک کی جانب سے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی دہشت گردی کا الزام سامنے آیا ہے، دیکھتے ہیں کہ دنیا بھارتی دہشت گردی کے ذمے داروں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔