محکمہ پولیس میں اصلاحی عمل

743

محکمہ پولیس کسی زمانے میں خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اگر ایک اکیلا پولیس والا علاقے میں خوف کی علامت ہوتا تھا پولیس میں مقامی لوگ بھرتی کیے جاتے تھے علاقے کے عوام ان کا احترام کرتے تھے پھر ایک عوامی لیڈر بھٹو صاحب تشریف لے کر آئے وہاں سے حقیقی معنوں میں بگاڑ شروع ہوا جو پولیس والا کسی کی چائے نہیں پیتا تھا اس نے رشوت لینا شروع کردی مجرم پھلنے پولنے لگے جرائم بڑھنا شروع ہوگئے پھر تو جو اقتدار میں آیا اس نے اس محکمہ کو اپنے ذاتی کاموں میں لگا دیا پھر وقت کے ساتھ ساتھ پروٹوکول کا سلسلہ شروع ہوگیا پولیس کا اہم محکمہ سیاست دانوں کے ہاتھوں میں کٹ پتلی بن کر رہ گیا۔ گائوں اور دیہات میں تو جاگیرداروں، چودھریوں، وڈیروں کا قانون چلتا ہے علاقے کا ایس ایچ او ان کی اپنی مرضی کا ہوتا ہے آپ کو یاد ہوگا کہ ایک وڈیرے کے ڈیرے پر ایک بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی جب اس کے گھر والے ایف آئی آر کٹوانے گئے تو ان ایف آئی آر درج نہیں کی گئی بلکہ الٹا پولیس نے دھمکی دی کہ اپنی زبان کو بند رکھو نہیں تو سب کو وڈیرے کے آدمی جان سے مار دیں گے۔ کوئی شریف آدمی تھانے نہیں جاتا وہ اپنی عزت سے ڈرتا ہے آپ کو ٹی وی کا وہ اشتہار تو یاد ہوگا۔ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی، کریں دل سے ان کی مدد آپ بھی۔ آج پولیس کی مدد کے بغیر جرم پروان نہیں چڑھ سکتا ہر مافیا کے ساتھ پولیس ملی ہوئی ہوتی ہے۔ میں ایک بڑے سیاسی گھرانے کے نواسے کے پروگرام میں گیا وہ ایک لینڈ مافیا اور نام نہاد بلڈر تھے وہاں مجھے شہر کے بڑے بڑے لوگ نظر آئے۔ یہ تقریب گلستان جوہر کے ایک ہزار گز کے پلاٹ پر ہورہی تھی بڑی تعداد میں وہاں پولیس موجود تھی بلڈر ہر دوسرے آدمی کو اپنا پارٹنر بتا رہا تھا تھوڑی دیر میں علاقے کے ایس ایچ او صاحب تشریف لے کر آئے تو پتا چلا اس جعلی پروجیکٹ کے وہ بھی پارٹنر ہیں۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اندرون سندھ سے پولیس افسران کو کراچی لایا گیا کراچی کے ہر محکمے میں بااثر سیاسی سندھی بھائیوں کو لگایا گیا۔ اردو بولنے والوں کو پیپلز پارٹی پسند نہیں کرتی اس کی بڑی مثال پیپلز پارٹی ضلع وسطی کے سابق صدر سہیل عابدی ہیں جو آج بھی یوسف پلازہ کے 2 کمروں کے فلیٹ میں رہائش پزیر ہیں۔ جبکہ میرے حساب سے ان کو وزیراعلیٰ کا مشیر ہونا چاہیے تھا مگر سلام ہے اس عظیم جیالے کو کہ اس نے پارٹی کو نہیں چھوڑا جب کہ کئی سیاسی جماعتوں نے اس کو آفر بھی کی۔ خیر یہ کوئی نئی بات نہیں بھٹو صاحب نے پھانسی سے پہلے یہ تسلیم کیا تھا کہ کاش میں مہاجروں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا اگر ان کو میں ان کے جائز حقوق دے دیتا، یہ وہ قوم ہے مجھے پھانسی کے پھندے سے اُتار لیتی۔

آج تھانوں کا حال دیکھ لیں ہر دوسرے پولیس والے کے منہ میں آپ کو ماوا اور گٹکا نظر آئے گا میں ایک سابق مشہور ڈی ایس پی کا پان پراگ بنانے کا اپنا کارخانہ سرکاری قبضے کی زمین پر چلتا تھا۔ کافی مال کمانے کے بعد انہوں نے اس کو مہنگے داموں فروخت کردیا جبکہ سرکاری زمین کو فروخت کرنا غیر قانونی عمل ہے۔ آج کل عدالت نے گٹکے، ماوا، مین پوری کی خریدوفروخت پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اس پابندی نے تو پولیس کی چاندی کردی ہے ہر وہ کام جس پر حکومت یا عدلیہ پابندی لگاتی ہے پولیس اس کی سرپرستی کرتی ہے۔ کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں پان چھالیہ کی دکانیں موجود ہیں آج ہر دکان سے پولیس والوں کا بھتا چل رہا ہے۔ میں ایک پان چھالیے والے نے مجھے بتایا کہ پورے دن میں 10 سے 15 پولیس والے دکان پر آتے ہیں سب 100 روپے لے کر جاتے ہیں۔ ہزار روپے تو روز پولیس کا بھتا ہے اس علاقے میں 20 کے قریب دکان ہیں اگر حساب لگایا جائے تو روز کے 20 ہزار پولیس والے لے کر جارہے ہیں۔ علاقوں میں لگے ہوئے ٹھیلوں سے مفت سبزی، مفت پھل اور روزانہ کا بھتا الگ۔ کچھ لوگوں نے فٹ پاتھوں پر گنے کی مشین لگا رکھی ہے ان سے روزانہ کی بنیاد پر بھتا لیا جاتا ہے۔

میں کراچی کے علاقوں میں زیادہ تر پیدل سفر کرتا ہوں اس کی وجہ ایک تو صحت قائم رہتی ہے دوسرے حالات و واقعات پر نظر پڑتی ہے۔ یہ واقعہ نیو کراچی سندھی ہوٹل کے قریب ایک گلی کا ہے میں نے دیکھا کہ دو موٹر سائیکل وہاں رکھے انہوں نے کرتا اتارا تو اندر سے پولیس کی وردی نظر آئی وہ کسی جگہ سے واردات کرکے اندھیرے میں آئے تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے مگر کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ابن آدم تو دیکھتا ہے پھر جیب سے نوٹ نکال کر تقسیم کرنے لگے میں جب ان کے قریب سے گزرہ تو انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا کیا دیکھ رہا ہے جا چل نکل شکل اور زبان سے وہ غیر مقامی لگ رہے تھے ایسا نہیں ہے کہ پورا محکمہ پولیس خراب ہے اس محکمے میں ایماندار لوگ بھی موجود ہیں مگر ان کی تعداد رشوت خوروں سے کم ہے اگر ہمارے ملک میں انصاف ہو احتساب ہو تو کئی پولیس والے ارب پتی بھی نظر آئیں گے کروڑ پتی افسران تو بے شمار ہیں ایک ایس ایچ او ڈیفنس، کلفٹن، PECHS میں بڑے بڑے بنگلوں میں کس طرح سے رہ سکتا ہے بڑے افسران تو الگ ہیں بڑی بڑی گاڑیاں ان کے بنگلوں میں نظر آتی ہیں بچے امریکا اور لندن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ کیا 17 گریڈ کا افسر اس قابل ہوتا ہے اس کی تنخواہ سے تو بس عزت سے گزارا ہوسکتا ہے مگر یہ عیاسی کسی کو نظر کیوں نہیں آتی۔ کتنے نامی گرامی ڈی آئی جی، آئی جی پولیس کے اس محکمے کو درست کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ دراصل سوشل میڈیا پر اس وقت 30 بااثر لینڈ مافیا کے نام آرہے ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور ایم پی اے کے علاوہ ایک ڈی آئی جی اور 2 ایس ایس پی کے نام آرہے ہیں جو اس وقت اربوں روپے کے مالک ہیں۔ دبئی اور دیگر ممالک میں ان کے بینکوں میں ڈالرز موجود ہیں، اربوں کی جائدادیں خرید کر ڈالی ہوئی ہیں بس جب نیب یا دیگر ادارے ان پر ہاتھ ڈالیں گے تو یہ اس سے پہلے ملک سے فرار ہوجائیں گے۔

یہ بات تو اب سب کے علم میں ہے کہ ماضی میں اور آج من پسند تھانوں میں پوسٹنگ کے لیے ایس ایچ او حضرات بھاری رشوت دے کر چارج حاصل کرتے ہیں جب کئی لاکھ رشوت دے گا تو وہ پھر ایمانداری سے کس طرح چل سکتا ہے۔ ایک شناختی کارڈ گم ہونے کی ایف آئی آر کاٹنے پر بھی رشوت لی جاتی ہے دو پارٹی آپس میں لڑپڑیں اور تھانے میں کیس آجائے تو جب تک دونوں پارٹی رشوت نہیں دیں گی ان کا کیس حل نہیں ہوگا اگر آپ حق پر بھی ہیں تو بھی رشوت کے بغیر آپ کو انصاف نہیں ملے گا روزانہ بے شمار موبائل چھینے جاتے ہیں مگر لوگ ڈر کی وجہ سے تھانے نہیں جاتے ہیڈ محرر اتنے سوال کرتا ہے ایسا لگتا ہے کہ آپ مجرم ہیں۔ سب سے پہلے ہم کو تھانوں کے ماحول کو تبدیل کرنا ہوگا عوام کے دلوں سے تھانوں کا خوف نکالنا ہوگا۔ 15 پر کال کرنے والوں کو پریشان نہیں کیا جائے، لوگ ڈر کی وجہ سے 15 پر کال نہیں کرتے۔ نگراں حکومت کے آتے ہی پولیس کے محکمے میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے، کراچی کے 35 ایس ایچ او سمیت 97 افسران کے تبادلے کردیے ہیں ان کو ضلع بدر کردیا گیا ہے۔ کاش کراچی میں کراچی کے مقامی پولیس والوں کو پوسٹ کیا جاتا کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بغیر رشوت کے پولیس میں بھرتی کیا جاتا، پولیس کو سیاست سے دور رکھا جاتا تو آج کراچی میں عوام سکون کا سانس لیتے۔ محکمہ پولیس ایک ایسا محکمہ ہے اگر یہ ایماندار ہوجائے تو عوام بلاخوف آزادی سے بینکوں سے رقم کا لین دین کرسکتے ہیں، ٹریفک پولیس اگر ٹھیک ہو تو کسی کی مجال نہیں کے سگنل کو توڑ سکے یہ بغیر اسٹاپ چنگ چی رکشہ اور منی بس روک سکیں یہ ہمارا اپنا محکمہ ہے اس کو ٹھیک کرنا ریاست کی ذمے داری ہے ابھی وقت ہے اس اہم مسئلے پر سوچا جائے۔