سرکاری اسکولوں میں درسی کتب کی نایابی

1672

سندھ کے تمام سرکاری اسکولوں میں متوسط اور غریب گھرانوں کے بچے زیر تعلیم ہیں پچھلے دو سال سے سندھ حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی درسی کتب اس کے باوجود کہ مورخہ 8اگست 2023 کو امت اخبار میں شائع ہونے والا چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جناب آغا احمد پٹھان کے بیان مطابق سرکاری اسکولوں میں نصابی کتب کی کمی نہیں بلکہ کچھ سازشی عناصر کمی کا حوالہ دے کر ادارے کو بدنام کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں بس اتنا عرض ہے کہ آفس میں بیٹھ کر بیان جاری کرنے سے زیادہ بہتر ہے خود سرکاری اسکولوں کا دورہ کریں تاکہ محترم کو آگاہی مل سکے کہ سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم بچے ابھی تک نصابی کتابوں سے محروم ہیں۔ جب کہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین جو اپنے بچوں کے لیے مہنگے داموں جرنلز، رجسٹر، کاپیاں اور اسٹیشنری کا سامان ہی مشکل سے خرید پاتے ہیں اس پر نیا نصاب نہ ملنے پر اذیت کا شکار ہیں ساتھ ہی طلبہ وطالبات کی کورس نہ ملنے کی وجہ سے پڑھائی سخت متاثر ہے۔ لہٰذا وزیر تعلیم اور حکام بالا سے پرزور اپیل ہے کہ اس مسئلے کی سنگینی احساس کرتے ہوئے مسئلہ کے حل کے لیے ہنگامی کوشش کی جائے۔ بقول چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سندھ کے سرکاری اسکولوں میں نصابی کتب کی کوئی کمی نہیں ہے تو جلد از جلد نئے کورس کی کتابیں فراہم کی جائیں۔
فہمیدہ رمضان بدر
ٹنڈو طیب ملت آباد حیدرآباد سندھ

سانحہ بہاول پور: نظام تعلیم پر سوالیہ نشان
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ہونے والے واقعے نے اس بات کا ثبوت پیش کیا ہے کہ پاکستان جیسی اسلامی ریاست میں طالبات کو محفوظ ماحول حاصل نہیں ہے جبکہ یہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ یہ واقعہ پاکستان کے نظامِ تعلیم پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ طالبات کے حقوق اور ان کی عصمت کی حفاظت حکومت پاکستان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ ایک واقعہ ہے۔ خدا جانے اور کتنے کی واقعات ہوں گے مگر ان سب کا ایک ہی حل ہے۔ اس مسئلہ کو اس کی جڑ سے ختم کرنا ہوگا اور اس مسئلہ کی جڑ مخلوط نظامِ تعلیم ہے۔ اگر طلبہ و طالبات کے لیے علٰیحدہ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔ لہٰذا میری اعلیٰ حکام سے یہ درخواست ہے کہ اس مسئلہ کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہوئے اس کے خلاف قدم اٹھائیں۔ امید ہے کہ آپ کی جانب سے جلد عملی اقدامات نظر آئیں گے۔
مسفرہ امتیاز (راولپنڈی، پاکستان)

خرابی کی اصل جڑ مخلوط نظام تعلیم

تھا ضبط بہت مشکل، اس سیلِ معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے، اسرارِ کتاب آخر!

برصغیر میں انگریزوں نے اپنی فرماں روائی کو مستحکم کرنے کے لیے جو نظامِ تعلیم قائم کیا تھا وہ خالصتاً ان کی اپنی ہی تہذیب کا آئینہ تو تھا۔ اس نظامِ تعلیم کا اہم جزو ’’مخلوط تعلیم‘‘ تھا۔ عام مسلمان بھی یہ جانتا تھا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا منشا بہرحال یہ نہیں تھا کہ نوجوان طلبہ و طالبات بے پردگی اور آزادانہ تعلقات کے سائے تلے پروان چڑھیں۔ آزادی کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ انگریزوں کے قائم کردہ مخلوط تعلیمی نظام کو ختم جائے گا۔ مگر افسوس! اللہ کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں قوم کی کثیر تعداد مغربی تہذیب سے بے انتہا متاثر تھی، حد تو یہ ہوئی کہ پاکستان کو مغربی تہذیب میں ڈھالنے کی پوری کوشش کی گئی۔ مخلوط نظام ان میں سرفہرست ہے۔
آج!! نوجوان طلبہ وطالبات میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود عزت و احترام کی قائم کردہ حدود نظر سے اوجھل ہوتی جا رہی ہیں۔ آئے دن تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے سنگین واقعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مخلوط نظامِ تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس طرز کو ایک fashion کے طور پر اپنایا جانے لگا ہے۔ طالبات کے علٰیحدہ اداروں میں پڑھنے پر حوصلہ شکنی کی جانے لگی ہے۔ طلبہ و طالبات کی دلچسپی اب پڑھائی میں کم اور ایک دوسرے میں زیادہ بڑھ رہی ہے۔ تعلیم گاہوں میں نظم ضبط کے بڑھتے ہوئے مسائل منظر ِعام پر آتے ہیں۔ اگلی جوان نسل پر اس کے اثرات کیا ہوں گے اس کا اندازہ موجودہ امریکا کو دیکھ کر بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں اب مرد و عورت کا فرق نہیں رہا۔ دونوں آزادانہ اپنی جنس تبدیل کروا رہے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں transgender act منظور کروانے کی کوشش کی گئی۔ کچھ تعلیم گاہیں ایسے لوگوں کو بھی داخلہ دے رہی ہیں جنہوں نے اپنی جنس مرد سے عورت میں تبدیل کروائی ہے۔ ایسی صورت حال میں طالبات اپنے ہی اداروں میں محفوظ نہیں ہیں۔

قابل ِ توجہ امر تو یہ ہے کہ مخلوط نظامِ تعلیم کے خلاف بولنے والے کو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم ہی کے خلاف ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم کے لیے ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ آزادی سے سیکھ سکیں۔ مخلوط تعلیم گاہوں کو درپیش مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ استاد کے تدریس مشکل ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک استانی طالبات سے تعلق بنا سکتی ہے ویسے ایک استاد نہیں بنا سکتا، بالکل ایسی ہی صورت حال طلبہ کی تعلیم میں بھی ہے۔ مگر مخلوط نظام میں استاد؍ استانی کے لیے بیک وقت دو طرح کے ذہنوں کو ایک ہی رخ میں لے کر چلنا نہایت ہی کٹھن امر ہے۔

ہم حکومت ِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ طلبہ و طالبات کے لیے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں۔ نیز، مخلوط نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ تاکہ پاکستان مسائل میں جکڑے جانے کے بجائے ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور دنیا میں ممتاز مقام حاصل کرے۔
دختر ِ کوہسار (عمارہ ایاز) راول پنڈی