لباس کے آداب

633

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا سا لباس پہنے اور اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مرد کا سا لباس پہنے‘‘ (ابودائود)

ایک بار حضرت عائشہؓ سے کسی نے ذکر کیا کہ ایک عورت ہے جو مردوں کے سے جوتے پہنتی ہے۔ تو آپؓ نے فرمایا: ’’رسولؐ نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مرد بننے کی کوشش کرتی ہیں‘‘۔

-13 خواتین دوپٹہ اوڑھنے کا اہتمام رکھیں اور اس سے اپنے سر اور سینے کو چھپائے رکھیں۔ دوپٹا ایسا باریک نہ اوڑھیں جس سے سر کے بال نظر آئیں۔ دوپٹے کا مقصد ہی یہ ہے کہ زینت کو چھپایا جائے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اور اپنے سینوں پر اپنے دوپٹوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘ (النور 31/24)

ایک بار نبیؐ کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ آئی، آپؐ نے اس میں سے کچھ حصہ پھاڑ کر دحیہ کلبی کو دیا اور فرمایا اس میں سے ایک حصہ پھاڑ کر تم اپنا کُرتہ بنالو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لیے دے دو، مگر ان سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگالیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے۔ (ابودائود)

کتاب و سنت کی اس صریح ہدایت کو پیش نظر رکھ کر احکام الٰہی کے مقصد کو پورا کیجیے اور چارگرہ کی پٹی کو گلے کا ہار بناکر اللہ اور رسولؐ کے احکام کا مذاق نہ اڑایئے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب یہ حکم نازل ہوا تو عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے‘‘۔ (ابودائود)

-14لباس ہمیشہ اپنی وسعت اور حیثیت کے مطابق پہنیے۔ نہ ایسا لباس پہنیے جس سے فخر و نمائش کا اظہار ہو اور آپ دوسروں کو حقیر سمجھ کر اترائیں اور اپنی دولت مندی کی بے جانمائش کریں اور نہ ایسا لباس پہنیے جو آپ کی وسعت سے زیادہ قیمتی ہو اور آپ فضول خرچی کے گناہ میں مبتلا ہوں اور نہ ایسے شکستہ حال بنے رہیں کہ ہر وقت آپ کی صورت سوال بنی رہے اور سب کچھ ہونے کے باوجود آپ محروم نظر آئیں۔ بلکہ ہمیشہ اپنی وسعت و حیثیت کے لحاظ سے موزوں، باسلیقہ اور صاف ستھرے کپڑے پہنیے۔

بعض لوگ پھٹے پرانے اور پیوند لگے کپڑے پہن کر شکستہ حال بنے رہتے ہیں اور اس کو دین داری سمجھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کو دنیادار سمجھتے ہیں جو صاف ستھرے سلیقے والے کپڑے پہنتے ہیں، حالانکہ دین داری کا یہ تصور سراسر غلط ہے، حضرت ابوالحسن علی شاذلی ایک بار نہایت ہی عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے، کسی شکستہ حال صوفی نے ان کی اس ٹھاٹ باٹ پر اعتراض کیا کہ بھلا اللہ والوں کو ایسا بیش بہا لباس پہننے کی کیا ضرورت ہے؟ حضرت شاذلی نے جواب دیا بھائی یہ شان و شوکت، عظمت والے اللہ کی حمد و شکر کا اظہار ہے اور تمہاری یہ شکستہ حال صورت حال ہے تم زبان حال سے بندوں سے سوال کررہے ہو دراصل دین داری کا انحصار نہ پھٹے پرانے پیوند لگے گھٹیا کپڑے پہننے پر ہے نہ لباس فاخرہ پہننے پر۔ دین داری کا دارومدار آدمی کی نیت اور صحیح فکر پر ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی ہر معاملہ میں اپنی وسعت اور حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے اعتدال اور توازن کی روش رکھے۔ نہ شکستہ صورت بناکر نفس کو موٹا ہونے کا موقع دے اور نہ زرق برق لباس پہن کر فخر و غرور دکھائے۔

حضرت ابوالاحوص کے والد اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میرے جسم پر نہایت ہی گھٹیا اور معمولی کپڑے تھے۔ آپؐ نے پوچھا تمہارے پاس مال و دولت ہے؟

میں نے کہا جی ہاں، دریافت فرمایا کس طرح کا مال ہے؟ میں نے کہا اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے، اونٹ بھی ہیں، گائے بھی ہیں، بکریاں بھی ہیں، گھوڑے بھی ہیں اور غلام بھی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نواز رکھا ہے تو اس کے فضل و احسان کا اثر تمہارے جسم پر ظاہر ہونا چاہیے (مشکوٰۃ)

مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے تمہیں سب کچھ دے رکھا ہے تو پھر تم نے ناداروں اور فقیروں کی طرح اپنا حلیہ کیوں بنا رکھا ہے؟ یہ تو اللہ کی ناشکری ہے۔

حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ایک بار نبیؐ ملاقات کی غرض سے ہمارے پاس تشریف لائے۔ تو آپؐ نے ایک آدمی کو دیکھا جو گرد و غبار میں اٹا ہوا تھا اور اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کیا اس آدمی کے پاس کوئی کنگھا نہیں ہے جس سے یہ اپنے بالوں کو درست کرلیتا؟ اور آپؐ نے ایک دوسرے آدمی کو دیکھا جس نے میلے کپڑے پہن رکھے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کیا اس آدمی کے پاس وہ چیز (یعنی صابن وغیرہ) نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھولیتا۔ (مشکوٰۃ)

ایک شخص نے نبیؐ سے کہا یا رسولؐ اللہ! میں چاہتا ہوں کہ میرا لباس نہایت عمدہ ہو، سر میں تیل لگا ہوا ہو، جوتے بھی نفیس ہوں، اسی طرح اس نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا۔ یہاں تک اس نے کہاکہ میرا جی چاہتا ہے کہ میرا کوڑا بھی نہایت عمدہ ہو۔ نبی کریمؐ اس کی گفتگو سنتے رہے پھر فرمایا یہ ساری باتیں ہی پسندیدہ ہیں اور اللہ اس لطیف ذوق کو اچھی نظر سے دیکھتا ہے (مستدرک حاکم)۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں میں نے رسولؐ اللہ سے دریافت کیا، یا رسولؐ اللہ! کیا یہ تکبر اور غرور ہے کہ میں نفیس اور عمدہ کپڑے پہنوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا بلکہ یہ تو خوب صورتی ہے اور اللہ اس خوب صورتی کو پسند فرماتا ہے (ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا نماز میں دونوں کپڑے پہن لیا کرو (یعنی پورے لباس سے آراستہ ہوجایا کرو) اللہ زیادہ مستحق ہے کہ اس کی حضوری میں آدمی اچھی طرح بن سنور کر جائے‘‘ (مشکوٰۃ)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا جس کے دل میں ذرا بھی غرور ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا، ایک شخص نے کہا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے عمدہ ہوں، اس کے جوتے عمدہ ہوں۔ نبیؐ نے فرمایا اللہ خود صاحب جمال ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے (یعنی عمدہ نفیس پہناوا غرور نہیں ہے) غرور تو دراصل یہ ہے کہ آدمی حق سے بے نیاز برتے اور لوگوں کو حقیر و ذلیل سمجھے (مسلم)

-15 پہننے اوڑھنے اور بنائو سنگار کرنے میں بھی ذوق اور سلیقے کا پورا پورا خیال رکھیے۔ گریبان کھولے کھولے پھرنا، الٹے سیدھے بٹن لگانا، ایک پائنچہ چڑھانا اور ایک نیچا رکھنا اور ایک جوتا پہنے پہنے چلنا یا الجھے ہوئے بال رکھنا، یہ سب ہی باتیں ذوق اور سلیقے کے خلاف ہیں۔

ایک دن نبیؐ نے اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ جاکر اپنے سر کے بال اور داڑھی کو سنوارو۔ چنانچہ وہ شخص گیا اور بالوں کو بنا سنوار کر آیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا، کیا یہ زینت و آرائش اس سے بہتر نہیں ہے کہ آدمی کے بال الجھے ہوئے ہوں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ شیطان ہے (مشکوٰۃ)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ ایک جوتا پہن کر کوئی نہ چلے یا دونوں پہن کر چلو یا دونوں اتار کر چلو (ترمذی) اور اسی حدیث کی روشنی میں علما دین نے ایک آستین اور ایک موزہ پہننے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔

-16 سرخ اور شوخ رنگ، زرق برق پوشاک اور نمائشی سیاہ اور گیروا کپڑے پہننے سے بھی پرہیز کیجیے۔ سرخ اور شوخ رنگ اور زرق برق پوشاک عورتوں ہی کے لیے مناسب ہے اور ان کو بھی حدود کا خیال رکھنا چاہیے۔ رہے نمائشی لمبے چوڑے جبے یا سیاہ اور گیروا جوڑے پہن کر دوسروں کے مقابل میں اپنی برتری دکھانا اور اپنا امتیاز جتانا تو یہ سراسر کبر و غرور کی علامت ہے۔ اسی طرح ایسے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز کپڑے بھی نہ پہنیے جس کے پہننے سے آپ خوامخواہ عجوبہ بن جائیں اور لوگ آپ کو ہنسی اور دل لگی کا موضوع بنالیں۔

-17 ہمیشہ سادہ، باوقار اور مہذب لباس پہنیے اور لباس پر ہمیشہ اعتدال کے ساتھ خرچ کیجیے۔ لباس میں عیش پسندی اور ضرورت سے زیادہ نزاکت سے پرہیز کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے ’’عیش پسندی سے دور رہو، اس لیے کہ اللہ کے پیارے بندے عیش پرست نہیں ہوتے‘‘ (مشکوٰۃ) اور نبیؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ جس شخص نے وسعت اور قدرت کے باوجود محض خاکساری اور عاجزی کی غرض سے لباس میں سادگی اختیار کی تو اللہ اس کو شرافت اور بزرگی کے لباس سے آراستہ فرمائے گا (ابودائود)

صحابہ کرامؓ ایک دن بیٹھے دنیا کا ذکر فرمارہے تھے تو نبیؐ نے فرمایا: ’’لباس کی سادگی ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے‘‘ (ابودائود)

ایک بار نبیؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے بہت سے بندے جن کی ظاہری حالت نہایت ہی معمولی ہوتی ہے، بال پریشان اور غبار میں اٹے ہوئے کپڑے معمولی اور سادہ ہوتے ہیں لیکن اللہ کی نظر میں ان کا مرتبہ اتنا بلند ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا فرمادیتا ہے اس قسم کے لوگوں میں سے ایک براء بن مالکؓ بھی ہیں‘‘ (ترمذی)

-18 اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے ان ناداروں کو بھی پہنایئے جن کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کچھ نہ ہو۔ نبیؐ کا ارشاد ہے ’’جو شخص کسی مسلمان کو کپڑے پہنا کر اس کی تن پوشی کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز جنت کا سبز لباس پہنا کر اس کی تن پوشی فرمائے گا‘‘۔ (ابودائود)

اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کسی مسلمان نے اپنے مسلمان بھائی کو کپڑے پہنائے تو جب تک وہ کپڑے پہننے والے کے بدن میں رہیں گے ، پہنانے والے کو اللہ اپنی نگرانی اور حفاظت میں رکھے گا (ترمذی)

-19 اپنے ان نوکروں اور خادموں کو بھی اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنایئے جو شب و روز آپ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ نبیؐ نے فرمایا ’’لونڈی اور غلام تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے ان کو تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے۔ پس تم میں سے جس کے قبضہ میں تصرف میں اللہ نے کسی کو دے رکھا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کو وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور اسے ویسا ہی لباس پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اس پر کام کا اتنا ہی بوجھ ڈالے جو اس کے سہار سے زیادہ نہ ہو، اور اگر وہ اس کام کو نہ کر پارہا ہو تو خود اس کام میں اس کی مدد کرے (بخاری و مسلم)