امریکی صدر جو بائیڈن نے ہندوستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اقتصادی راہداری کے آغاز کو ’’ایک بڑا سودا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والی دہائی میں اقتصادی راہداری کا جملہ اکثر سننے کو ملے گا۔ واضح رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتہ کو ہندوستان، مشرق وسطیٰ یورپ میگا اقتصادی راہداری کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے میں ہندوستان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اسرائیل، یورپی یونین، فرانس، اٹلی، جرمنی اور امریکا شامل ہوں گے۔ نریندر مودی نے اس راہداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم سب ایک اہم اور تاریخی شراکت پر پہنچ چکے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں یہ ہندوستان، مغربی ایشیا اور یورپ کے درمیان اقتصادی انضمام کا ایک بڑا ذریعہ ہوگا۔ مودی کا کہنا تھا کہ یہ مجوزہ کوریڈور پوری دنیا کے رابطے اور پائیدار ترقی کو ایک نئی سمت دے گا۔ یہ منصوبہ ریل اور شپنگ کوریڈور گلوبل انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ (PGII) کے لیے شراکت داری کا حصہ ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو فنڈ دینے کے لیے G7 ممالک کی ایک باہمی کوشش جسے PGII کہا جاتا ہے کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا بلاک کاؤنٹر سمجھا جاتا ہے۔
اس منصوبے کا مقصد توانائی کی مصنوعات سمیت شریک ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ تجارت کو ممکن بنانا ہے۔ یہ چین کے بڑے بنیادی ڈھانچے کے پروگرام بی آر آئی کا حقیقی معنوں میں کاؤنٹر بھی ثابت ہو سکتا ہے، جس کے ذریعے اس نے زیادہ سے زیادہ دنیا کو چین کی معیشت سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین کی طرف سے تیار کردہ دستاویز کے مطابق اس راہداری میں ریل لنک کے ساتھ ساتھ بجلی کی کیبل، ایک ہائیڈروجن پائپ لائن اور ایک تیز رفتار ڈیٹا کیبل شامل ہوگی۔ دستاویز نے اس منصوبے کو ’’براعظموں اور تہذیبوں کے درمیان ایک سبز اور ڈیجیٹل پل‘‘ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ صدر بائیڈن کے پرنسپل ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جون فائنر نے اس راہداری کو تیار کرنے کی تین بڑی وجوہات بتائی ہیں۔ اولاً یہ توانائی کے بڑھتے ہوئے بہاؤ اور ڈیجیٹل مواصلات کے ذریعے شامل ممالک میں خوشحالی میں اضافہ کرے گا۔ ثانیاً یہ منصوبہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ترقی کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کی کمی سے نمٹنے میں مدد کرے گا جب کہ ثالثاً یہ مشرق وسطیٰ سے نکلنے والی ہنگامہ خیزی اور عدم تحفظ پرمبنی درجہ حرارت کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس منصوبے کو چین کے ژی جن پنگ اور روس کے ولادیمیر پیوٹن کے تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے جی 20 گروپ کو مزید مضبوط کرنے کی بائیڈن کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
انڈیا، مشرق وسطیٰ، یورپ اقتصادی راہداری کا ایک حیران کن اور تعجب خیز پہلو اس اہم منصوبے میں ترکی کا شامل نہ کیا جانا ہے حالانکہ انڈیا کو یورپ سے جوڑنے والی اس اقتصادی راہداری کے راستے میں ترکی بھی آتا ہے لیکن اسے اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاہدے کے دو دن بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس منصوبے میں اپنے ملک کی عدم شمولیت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ راہداری اُن کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ دنیا کے نقشے پر ترکی ایک ایسی جگہ پرموجود ہے جو مغرب کو مشرق سے ملاتی ہے کیونکہ اس کا کچھ حصہ یورپ اور کچھ حصہ ایشیا میں ہے اسی مناسبت سے اسے یورپ کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ترکی نہ صرف تجارتی نقطہ نظر سے مضبوط پوزیشن میں ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی اس کا اچھا اثر رسوخ ہے، وہ ناٹو کا رکن ملک بھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس بہترین پوزیشن کے باوجود پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ اسے اس اقتصادی راہداری میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ترکی کو اس منصوبے میں شامل نہ کرنے کی اصل وجہ تو اسٹرٹیجک مسائل ہیں لیکن ترکی کو ساتھ نہ لانے کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جن میں ترکی کا قبرص کے مسئلے پر یونان کے ساتھ کشیدگی بھی ایک اہم وجہ ہے کیونکہ مشرقی بحیرہ روم میں دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے وسائل اور سمندری حدود پر قبضے کے لیے کئی بار کشیدہ حالات پیدا ہو چکے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ارد گرد کے ممالک کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے باعث ترکی کو اس منصوبے سے باہر رکھا گیا ہے، تاکہ مستقبل میں ان مشکلات اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعات سے بھی بچا جا سکے۔ اسی طرح ترکی کے پاکستان اور چین وروس کے ساتھ تعلقات نیز کشمیر اور فلسطین کے مسائل پر ترکی کا واضح اور دو ٹوک موقف بھی اس کی اس مجوزہ اقتصادی راہداری میں شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ اس منصوبے میں امریکا کا کیا کردار ہے اورکیا یہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹو کا مقابلہ کرنے پر مبنی منصوبہ تو نہیں ہے۔ اس منصوبے کو چونکہ بھارت لیڈ کررہا ہے لہٰذا اس کے متعلق یہ کہنے میں کسی کو کوئی باک نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا اصل مقصد ہی چین کے بی آر آئی اور سی پیک جیسے کثیر الجہتی منصوبوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ دوسری جانب اس اقتصادی راہداری میں چونکہ اسرائیل بھی شامل ہے لہٰذا اس وجہ سے بھی اسے ایک امریکی قیادت کے منصوبے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ سے خود کو پیچھے نہیں ہٹا رہا ہے بلکہ وہ اس خطے میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔