سندھ کی سیاست میں ترپ کا پتا بلدیاتی ادارے

888

سندھ کی سیاست میں ہل چل مچی ہوئی ہے۔ پندرہ سال اقتدار کے مزے لوٹنے والی پی پی پی، پھر یہ کہہ کر کہ ابھی تو میں جوان ہوں پھر سندھ میں اقتدار کے لیے نوجوان قیادت بلاول اور آصفہ کو میدان سیاست میں اتار چکی ہے اور بوڑھی قیادت آصف زرداری اور فریال تالپور سستانے اور سانس لینے کے لیے آرام کدہ میں بیٹھی مانیٹرنگ میں مصروف ہے۔ حال ہی میں بلاول اور آصفہ نے اندرون سندھ کا دورہ کیا تو انہوں نے بھی پرانے پارٹی کے ساتھیوں مخدوم گھرانے اور شکارپور کے امتیاز شیخ اور آغا سراج درانی کو نظر انداز کیا۔ مخدوم طالب مولیٰ جو روز اوّل سے پی پی پی کے شریک سفر ہیں وفادار ہیں ان کے ہاں کے بجائے مٹیاری کے جاموٹ کے پاس گئے اور یوں امتیاز شیخ اور آغا سراج درانی کو چھوڑ کر نئے شریک پارٹی ہونے والے غوث بخش مہر کو شرف ملاقات بخشا، یعنی پرانے پارٹی کے ساتھی پرانی قیادت کے ساتھ نتھی کرکے نئے عزم کے ساتھ دورے پر نکلے۔ انہوں نے پہلے للکارا کہ ہم نہیں جانتے انتخاب نوے دن میں ہوں اور پھر اس للکار کو سیاسی جھنکار سمجھا گیا تو رجوع کرکے کہہ دیا کہ انتخاب نوے دن میں ہوں یا ایک سو بیس دن میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دراصل سندھ کی کہاوت ہے کہ ایک مارے دوسرا اٹھائے کی طرز سیاست بلاول اور آصف زرداری نے اپنائی ہوئی ہے۔

سندھ کے اقتدار کے لیے پی پی پی کی بے تابی بڑھ کر ہے، سندھ میں سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سیاسی لیڈر مچھلی ہوتا ہے جو اقتدار کے سمندر بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ سو اس مرتبہ اقتدار کے سرچشمہ نے شاید پی پی پی سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ سو مقتدر حلقے بلاول کے اس بیان کو کہ افغانستان میں موجود امریکی اسلحہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس پہنچ گیا ہے کو گہرائی اور گیرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ پی پی پی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ جس طرح وہ سندھ کے بلدیاتی اداروں کے انتخابات جیت کر اقتدار سندھ کا حصہ بٹور چکی ہے وہ ان کے توسط اور سرمایہ سے عام انتخاب میں بھی کامیابی حاصل کرلے گی اور وہ مقتدر حلقوں کو سندھ کے حوالے سے دبائو میں رکھنے کے جارحانہ انداز کو اپنائے ہوئے ہے کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کل کے ان کے شریک سفر سیاسی متحدہ اور جمعیت علما اور اسلام بھی ان کی پارٹی سے کنارہ کرچکے ہیں اور مولانا فضل الرحمن جن کی امامت میں عمران حکومت کا تیا پانچہ کیا گیا وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ جی ڈی اے، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) سے سندھ میں انتخابی اتحاد ہوسکتا ہے۔ پی پی پی سے کوئی اتحاد نہ ہوگا۔ پی پی پی خوب سمجھ رہی ہے کہ یہ نئی صف بندی کس حوالے سے ہے اور کون کررہا ہے۔ سو وہ اس تاثر کو کہ سندھ میں پی پی پی وفاق کی سیاست کی علامت ہے سے ہاتھ کھینچنا ملک کے مفاد میں نہ ہوگا کو جتانے اور پختہ کرنے میں مصروف ہے جبکہ مقتدر حلقے جو کہہ رہے ہیں کہ ہم سیاست سے باز آئے یہ سیل اب کام نہیں آرہا مگر ملک کی سلامتی و استحکام کے لیے ہم آخری حد تک جائیں گے، یہ بھی شنید ہے کہ پی پی پی قیادت نے اگر جارحانہ سیاست اپنائی تو سندھ میں بلدیاتی ادارے توڑ کر نئے بلدیاتی ادارے کا اہتمام انتخابات کے ذریعے کرایا جائے اور یوں پی پی پی آدھی کو چھوڑ کر پوری کی طرف بھاگے گی تو آدھی سے بھی جائے گی۔

کیا یہ سیاسی ہلچل پھر ایک مرتبہ وہ رخ سندھ میں اختیار کرے گی کہ جب آصف علی زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکی دی اور بعدازاں پھر اُسی تنخواہ پر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کرکے بات بنائی۔ بلوچستان اور کے پی کے کی بدامنی کے ساتھ سندھ میں بھی امن وامان کا مسئلہ نہ ہوجائے کہ ٹپکے کا ڈر مقتدرہ کو بھی سوچنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ یوں سیاسی شطرنج کے کھلاڑی سندھ میں بڑی محتاط گیم کررہے ہیں اور ترپ کا پتا بلدیاتی ادارے ہیں دیکھیں کون بازی جیتتا ہے اور کون صبر کے گھونٹ پیتا ہے۔

سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے صدر جی ڈی اے کے رہنما سید زین شاہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کا بجٹ بلاول کے جلسوں پر خرچ کیا جارہا ہے، اگر پیپلز پارٹی کو تیسری بار این آر او دے کر سندھ کے عوام کے اوپر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو سندھ کے عوام بھرپور مزاحمت کریں گے۔ نگراں حکومت بلاول کو پروٹوکول دے کر یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ غیر جانبدار نہیں سندھ حکومت کے کرپٹ افسران پی پی پی کے جلسوں کی میزبانی کررہے ہیں جس سے شفاف انتخاب نہ ہونے کا تاثر پیدا ہورہا ہے۔