پرانے زمانے کا ایک قصہ ہے کہ روٹی کی عدم فراہمی پر احتجاج کیا جا رہا تھا امیر ِ شہر کی بیٹی نے فصیل ِ شہر کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھا تو حیرت سے پوچھا تھا ’’یہ روٹی پر کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟ اگر انہیں روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟‘‘ آج کم وبیش یہی صورت حال پاکستان کے سرکاری تنخواہ داروں کی ہوچکی ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر جب میں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تو اس طرح کے بہت سے مشورے ملے بعض خیر خواہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھئی ’’چھیپا، سیلانی پر تو دو وقت ’’چھوٹے‘‘ کا قورمہ مل ریا اے، بھئی اتنی سی تنخواہ میں تو تم روز بڑے کا نہیں کھا سکتے‘‘ اب انہیں کون بتائے کہ بے شک چھیپا اور سیلانی بھوکے افراد کو کھانا کھلاتے ہیں الخدمت فاؤنڈیشن کے بنو قابل پروگرام اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے گر سکھاتے ہیں مگر سارے ادارے مل کر بھی کسی ایک گھر کے گیس، بجلی اور پانی کے بل ماہانہ بنیادوں پر نہیں بھروا سکتے۔
جن کی تنخواہوں کے حساب سے ان کے کچن کی گروسری آتی ہے وہ مہیا نہیں کر سکتے مکھن، بریڈ اور جان کھانے والی پاپا کی شہزادیوں کو وہ سب مہیا نہیں کر سکتے، مکان کا کرایہ نہیں ادا کر سکتے، میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر کے مہنگے تعلیمی اداروں کی فیسیں نہیں بھروا سکتے دیگر خرچ گنوانے بیٹھیں تو کالم طویل ہو جائے گا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر امداد محض روپے پیسے سے پوری نہیں ہو سکتی ہر چند کہ چھیپا اور سیلانی روز مٹن قورمہ کھلاتے ہوں گے ہمیں ان سے سروکار نہیں وہ جیتے رہیں سلامت رہیں اللہ کے بندوں کی امداد کرتے رہیں۔
یہاں ہم بات کر رہے ہیں حق کے لیے آواز بلند کرنے کی، باطل کو پرے پھینک دینے کے لیے حق والوں کی قوت بن جانے کی، نظام کی درستی کے لیے ساتھ دینے کی نہ کہ مفت مشاورت کے ڈھیر لگ گئے کہ آسان اور عمدہ ’’مفتا‘‘ کہاں سے لگ سکتا ہے۔ اب کون انہیں سمجھائے کہ میری طرح کتنے ہی افراد احتجاج کو نوک قلم و زباں تک لاتے لاتے اس لیے رک گئے ہوں گے کہ لوگ کیا کہیں گے کچھ مہینوں سے آدھی، ادھوری اور تاخیر سے ملتی ہوئی تنخواہوں میں ہی یہ عرش سے فرش پر آ گئے؟ یہ کیک، بسکٹ کھانے والے کچھ عرصہ چھابڑی کے نان چنے کیوں نہیں کھا لیتے؟ اب ایسا بھی کیا نخرہ؟‘‘ یہ وہ معاشرتی روئیے ہیں جو سچ کو چھپا کر سفید پوش عوام کو جھوٹ اور پھر تلخ ترین انجام سے دوچار کر دیا کرتے ہیں سب کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے کے چکر میں حق کی نقاب کشائی پیچھے چھوڑ دی جاتی ہے اور یہی اس معاشرے کے زوال کی وجہ ہے۔
ہراساں کی جانے والی لڑکی؍ لڑکا کبھی نہیں بتا پاتے لوگوں کے سوالات کی کاٹ کا سوچ کر، سسرال میں اذیت سہتی ہوئی لڑکی یا بیگم کے ظلم برداشت کرنے والے لڑکے کبھی کسی کو کچھ نہیں کہہ پاتے کہ لوگ کیا کہیں گے (حالانکہ مشاورت سے بہتری کے امکانات بھی ہو سکتے ہیں) اور اسی میں گھر ٹوٹ جاتا ہے گھر بچ بھی جائے تو مان ٹوٹ جاتے ہیں اور عجیب روکھی پھیکی سی زندگی گزاردی جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کہہ دیا جائے جو برا ہے بھلا ہے بتا دیا جائے جو طلب ہے حاجت ہے، حق ہے ناحق ہے وہم ہے یا سچ ہے جو بھی کچھ ہے بتائیں، سمجھائیں آگاہ کیجیے کوئی مسئلہ ایسا نہیں کہ جس کا حل نہ ہو بات آگے تو بڑھے سب ٹھیک ہو جائے گا اجتماعیت کی برکت سے باطل اوہام پرستی کی آڑ میں چھپنے کے بجائے حق کی راہ میں آنے سے لرزاں رہے گا۔ مگر یہ کیا کہ خود حق ہی حیراں ولرزاں ہے کہ آواز حق کو نوائے فقیری سمجھ کر کسی نے کاسے میں سکے ڈال دیے تو کیسے سمجھائیں گے کہ ہمیں خیرات نہیں حق کے راستے میں آپ کا ساتھ چاہیے۔ اور ساتھ دینے کے طریقے اس دور میں یہی ہیں کہ اربابِ اختیار و صحافت کے تمام سوشل میڈیا رابطوں پر جا کر اس مسئلے کے حل پر انہیں آمادہ کیا جائے بس۔
یقین جانیے لوگوں کے اس سوالاتی سیشن ومشاورت کا سوچ کر ہی بہت سے نہیں بلکہ سارے ہی لوگ خاموشی سے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ انیس بیس گریڈ والے بھی ایک دو ماہ کی تنخواہیں نہ ملنے پر ایسے بلک بلک کر احتجاج کریں گے کہ جیسے بھوکا بچہ کرتا ہے۔ تو جناب جان لیں یہ افسر شاہی کی نہیں پروفیسرز کی تنخواہیں ہیں کہ جن میں دو دو ٹن کے چار پانچ اے سی کا بل اور ہیلی کاپٹر کے پٹرول کی رقم اور کتوں، بلیوں کی امپورٹڈ فیڈ نہیں بس پاپا کی شہزادیوں کے بریڈ مکھن اور میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر اداروں کی فیسیں اور گھر کے کرائے اور بلوں کی رقم درکار ہے وہ بھی اپنی حق حلال اور محنت کی کمائی سے جو ادارہ بر وقت اور بغیر کٹوتی کے ادا کر دے۔ امید ہے اب بات سمجھ میں آ گئی ہوگی کہ گریڈ ایک تا بیس سب اپنی اپنی تنخواہوں کے دائرے میں اپنی اپنی چادروں کے اندر ہی ہیں جتنا بڑا گریڈ اتنی ہی بڑی چادر اور اتنا ہی بڑا دائرہ جسے چھیپا یا سیلانی کے روزانہ ملنے والے مٹن قورمے نہیں بھر سکتے۔