سیاسی تماشے

712

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی رہائی اور گرفتاری پر ٹی وی اینکر اور سیاسی دانشور کچھ بھی کہیں مگر عوام کو لطف اندوز ہونے کے لیے ایک نیا تماشا مل گیا ہے، بڑے دلچسپ تبصرے کیے جارہے ہیں، عوام کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اب لاہور ہائی کورٹ کو یہ احساس ہو جانا چاہیے کہ پیشی پیشی کا کھیل کتنا اذیت ناک ہوتا ہے، جب پیشی پر پیشی پڑتی ہے تو سائلین کے دل پر کیا گزرتی ہے عدالتی نظام کے بارے میں کیسے کیسے خیالات جنم لیتے ہیں، پیشی پیشی کھیلنے والے جج صاحبان کے متعلق اور ان کی ذہنی کیفیات کے بارے میں کیا کیا سوچیں ابھرتی ہیں، اگر ان کا بس چلے تو انصاف گاہ کو اذیت گاہ کا نام دے دیں مگر ان کی بے بسی آڑے آجاتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی کیا مجبوری ہے کہ گرفتاری گرفتاری کے کھیل میں شریک ہونے کی اذیت میں مبتلا ہو چکی ہے ویسے عوامی حلقے اس کھیل تماشے سے خوش ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پیشی پر پیشی دینے والوں کو احساس ہو گیا ہو گا کہ کھیل کتنا اذیت ناک ہے، عدالت چودھری پرویز الٰہی کو رہا کرتی ہے اور پولیس اسے دوبارہ گرفتار کر لیتی ہے، یہ خاصا دلچسپ کھیل ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں رہائی کا حکم دینے والے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کو مستعفی ہو جانا چاہیے یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جن سائلین کو پیشی پر پیشی دی جاتی ہے وہ کیا کریں، کیا وہ بھی مقدمے سے دست بردار ہو جائیں بعض لوگوں کا یہ خیال بھی خاصا دلچسپ ہے کہ تماشا گر سیاسی پنڈال سجانے کا اہتمام کررہے ہیں، تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے بجائے عمران خان کا متبادل تیار کیا جارہا ہے، اس لیے تماشا گر رہائی اورگرفتاری کا کھیل کھیل رہے ہیں تاکہ چودھری پرویز الٰہی کو تحریک انصاف کا چیئرمین بنایا جاسکے اگر غور کیا جائے تو اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا، تماشا گر جب چاہیں اپنی ٹوپی سے خرگوش نکال لیں یا کبوتر نکال لیں یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کی حیثیت اس بچے جیسی ہے جو میلے میں گم ہو گیا ہو، تو کیا سیاسی میلے میں گم ہونے والے بچے کو کسی نے گود لے لیا ہے وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو وزارت عظمیٰ پر براجمان ہونے سے قبل گود میں بیٹھنا ضروری ہوتا ہے جس کے بیٹھنے سے چبھن کا احساس نہ ہو وزارت عظمیٰ اس کی کٹ بک پر ایشو کر دی جاتی ہے، ہر شخص کو اس حقیقت کا احساس ہے کہ موجودہ سیاسی نظام مملکت خدادا کے لیے موزوں نہیں مگر اس موضوع پر گفتگو کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ہوتا پاکستان کا قیام اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے معرض وجود میں آیا تھا مگر وعدے کے مطابق قرآن و سنت کی برتری اور سرفرازی کے بجائے مختلف طرز حکمرانی کے تجربات کیے گئے، جو عوام کی خوش حالی کے بجائے ان کی بد حالی کا سبب بنتے رہے، یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ اسلامی نظام تو کجا اسلامی معاشرہ بھی وجود میں نہ آیا، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر عوام عدالتوں سے رجوع کرنے کے بجائے پنچایتی نظام اپنا لیں تو بہتر ہو گا اس طرح پیشی پیشی کے چکر سے نجات مل جائے گی اور عدالتوں پر قومی خزانہ برباد ہونے سے بچ جائے گا۔
معیشت کا راگ الاپنے والوں کا کہنا ہے کہ ملکی دفاع پر خرچ ہونے والی رقم بہت زیادہ ہے اسے کم کر دیا جائے تو ملکی معیشت بہتر ہو سکتی ہے جھولی پھیلانے اور کشکول اٹھا کر ملکوں ملکوں پھرنے کی ذلت سے نجات مل جائے گی، فوج پر فخر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بھارت جیسے ہمسائے کو اوقات میں رکھنے کے لیے فوج کو زیادہ سے زیادہ مستحکم اور طاقتور ہونا ضروری ہے البتہ عدلیہ کی کارکردگی قومی خزانے پر ناروا بوجھ ہے، اس سے چھٹکارا مل جائے تو ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکتی ہے، اسلام نے ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کی تاکید کی ہے مگر عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں کوئی قابل عمل ہدایات نہیں کیں کیونکہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے سے انصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی اسلامی نظام میں قاضی خدا کی نیابت کرتا ہے مگر عدالتی نظام میں خدا کی نیابت کے بجائے شیطان کی جانشینی کی ترغیب دی جاتی ہے کیونکہ جج صاحبان کے فیصلے پر احتساب نہیں ہوتا، قانون کی کتاب دیکھنے کے بجائے چہرے دیکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔