لوٹ کا حل‘ اسوئہ رسولؐ

760

نگراں حکومت آئی تو جانے والی حکومت کی لڑکھڑاتی معیشت، زرمبادلہ کی قلت اور مہنگائی اس کے سامنے منہ پھاڑے کھڑی تھی۔ مختصر دورانیہ کی حکومت کے سامنے یہ چیلنج کوئی معمولی ہرگز نہیں، اس سے نمٹنے میں وقت لگے گا اور اب یہ بات کہی جارہی ہے کہ پہلے معیشت پھر انتخاب۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے صاف صاف بتا بھی دیا کہ میں انتخاب کا ٹائم فریم نہیں دے سکتا، مشکل فیصلے کرنے ہوں گے، وقت دو، تو رزلٹ لو۔ یہ مشکل فیصلے کیا ہیں جن کے لیے اس سے قبل بھی پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ ضیا الحق کے دور حکمرانی میں بلند ہوا اور گیارہ سال گزر گئے۔ احتساب کا عمل کچھ نہ بگاڑ سکا۔ یوں ہی پیٹ پھاڑ کر دولت نکالنے کے دعویدار سیاسی حکمران بھی خوب پیٹ بھرتے رہے۔ اب سید مودودی کی فکر سے متاثر وزیراعظم اور حافظ عاصم منیر آرمی چیف کی جوڑی کچھ کر گزرنے کی بات کررہی ہے، کتنی عجب بات ہے کہ آرمی چیف عاصم منیر نے تاجروں کی میٹنگ میں ان لٹیروں کا نام نہ لیا جو مددگار بن کر جو کیا سے کیا ہوگئے اور اربوں ڈالر کے مالک حکمرانی کی بدولت ہوگئے۔ سیاسی حکومت کے ادوار ان کے لیے موسم بہار ثابت ہوئے ان زرداری، شریفوں کی حکمرانی کی لوٹ کا کھاتا بند کردیا اور نئے نام بقول اینکر ندیم نے ڈالے جن میں پرویز خٹک، اسد قیصر، محمود خان اور عمران اسماعیل کے نام نمایاں تھے اور کہا کہ یہ کل کیا تھے اور آج کہاں کھڑے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں کرپٹ عناصر موجود ہیں جنہوں نے پاکستان سے زیادہ اپنے کام لیے۔ یہ لٹیروں کی دوسری کھیپ یوں تیار ہوئی کہ پہلے لٹیروں کا کیا بگڑ گیا تو ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔

اب پھر حکمران وقت کے تیور بگڑے ہیں تو اُس کے اثرات ڈالر، سونے کے نرخ کم ہونا شروع ہوگئے، اب صرف ڈنڈا گھوما ہے مارا نہیں گیا۔ یہ ڈنڈا گھمانے سے ہرگز کام نہیں چلے گا، ڈنڈا مار کر ان عناصر کی کمر توڑنی ہوگی جو حکومت سے لے کر ایوانوں میں رہے، جو فوج سے لے کر عدلیہ کو آلودہ کرنے کا سبب بنے، فیکٹری مالکان سے لے کر ذخیرہ اندوزی تک جنہوں نے لوٹ کا بازار گرم کیا۔ جنہوں نے اسمگلنگ، منی لانڈرنگ کے ذریعے تجارت کو بدنام کیا، جو مسجد محراب سے اٹھے اور دین کی دکانداری کرتے محلات تک جا پہنچے۔ سرکار کے نام اور قوت پر ملک اور قوم کو نوچا، ڈالر اور دولت کے انبار جمع کیے، یہ کوئی ڈھکے چھپے ہرگز نہیں، ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے حلفیہ بیان میڈیا پر دیا کہ ایک وزیر داخلہ سابقہ خصوصی جہاز کے ذریعے 27 ارب ڈالرز ملک سے باہر لے گیا۔ ایک ماڈل گرلز لے جاتے ہوئی پکڑی گئی تو پکڑنے والے اہلکار کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ان لیڈروں کی دیکھا دیکھی وہ بھی لوٹ میں شریک ہوگئے جو پاک پووتر کہلاتے تھے۔ انہوں نے بھی عزیز و اقارب کے نام پر خوب گنگا اشنان کیا، کوئی ادارہ نہ بچا جہاں کرپشن کے مکروہ جالے نہ تنے ہوں۔ نعرہ یہ رہا کہ ہمارا حصہ دو اور جتنا لوٹ سکو لوٹ لو، ان لٹیروں نے ملک کو کنگلا کردیا اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔ حل یہ ہے کہ جو سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنایا کہ لٹیروں کو ہوٹلوں میں مدعو کرکے قید کردیا کہ لوٹی ہوئی دولت اتنے وقت میں واپس حوالہ حکومت کرو ورنہ لاش جائے گی۔ سو جان کس کو پیاری نہیں ہوتی اربوں ڈالر، ریال کے ڈھیر حکومت کے قدموں تلے ڈال کر جان بخشی کرائی۔ مگر ہمارے ہاں ان لٹیروں کو جیل بھجوا کر اتنی رعایت دی گئی کہ ایک قیدی کو اپنی بیوی سے اولاد کا شرف حاصل ہوا اور یہ تماشا بھی سندھ میں ہوا کہ قیدی بھی ہوا۔ اور ایوان کے اجلاسوں میں بھی دھڑلے سے شرکت کرتا رہا۔ بلکہ یہ بھی ترمیم دستور میں کر ڈالی گئی کہ وزیراعلیٰ قید کی صورت میں بھی وزیراعلیٰ ہی رہے گا اور وہ اختیارات کا حامل ہوگا۔

سعودی عرب کے کڑے احتساب کی بدولت یہ ملک آئی ایم ایف کے مطابق 20 ممالک میں تیز ترین ترقی کرنے والی معیشت کا حامل قرار پایا اور کہا گیا کہ سعودی عرب نے تیل کے علاوہ پیداوار میں بھی واضح ترقی کی ہے جہاں مہنگائی کی شرح بھی کم ترین سطح پر رہی۔ 2022ء میں سعودی عرب کی مجموعی شرح نمو 8.7 فی صد تھی جس میں آئل پروڈکشن اور 4.8 فی صد نان آئل پروڈکٹس شامل تھیں۔ 2022ء کے اختتام تک بے روزگاری کی شرح میں تاریخی کمی ہوئی جو کم ترین شرح 4.8 فی صد پر رہی جو کووڈ کے دوران 9 فی صد تک پہنچ گئی۔ یہ ترقی زبانی کلامی کے بجائے عملی ڈنڈے سے ہوئی اور اپنے پرائے کی تمیز کے فرق سے ماروا کی گئی تھی ملک میں مسلسل احتساب ہوگا تو بات بنے گی۔ رسول اللہؐ کے دور کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ آپ کی خدمت میں چند بیمار حاضر ہوئے جن کے پیٹ بڑھے ہوئے تھے۔ آپ سے مشورہ علاج کے طالب ہوئے۔ آپ نے فرمایا جائو جو بیت المال میں صدقہ کے اونٹ میں ان کا دودھ اور پیشاب کا استعمال کرو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حضور کے نسخہ کی زوداثری نے کام دکھایا اور وہ صحت مند ہوگئے تو انہوں نے نگراں بیت المال کو شہید کیا اور صدقہ کے اونٹ لے کر راہ فرار اختیار کی۔ حضور کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کا پیچھا کرایا، مال واپس ہوا لٹیرے گرفتار ہو کر آپ کی خدمت اقدس میں پیش کیے گئے تو آپ نے فرمایا کہ ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ کر پہاڑوں میں پھینک دو۔ وہ لٹیرے اس کے سزاوار ہوئے اور تڑپ تڑپ کر واصل جہنم ہوئے۔ یوں وہ عبرت کدہ بنادیے گئے۔ حضور نے جو اوٹنی کے دودھ کا علاج بتایا وہ آج تک طب میں (پیٹ میں پانی پڑنے) جس کو جلندھر کے نام سے اور طبی اصطلاح میں استسقاء البطن کے نام سے پکارا جاتا ہے مجرب ترین نسخہ ہے۔ اس کی زوداثری لاثانی ہے اور لاعلاج بھی اس علاج سے صحت یاب ہوگئے۔ یہ دوا اور لٹیروں کی سزا بھی ایسا مجرب نسخہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے تو کیا مجال ہے کہ کوئی بھی بیت المال کو لوٹ کا مال سمجھے اور ملک سے فرار ہوجائے یا کرادیا جائے اب بھی اگر مگر تو اس واقعہ کی سنت پر عمل کرکے نشانِ عبرت بنادیا تو پھر کسی کی مجال ہی نہ ہوگی کہ کوئی نگاہ بد بھی لوٹ کی خاطر مال کی طرف اٹھا کر بھی دیکھے۔ اسوئہ رسول میں لٹیروں کا حل ہے۔ بس بہت ہوگئی، لوٹ نے ملک کو کنگلا کردیا، اب اللہ کا نام لے کر کچھ کرنا ہے تو کر گزرو۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانتے ہیں، تکاثر کا علاج قبر ہے۔