عدم برداشت اور غصہ

1277

معاصر روزنامے کی خبر کے مطابق کراچی میں پڑوسیوں کے مابین گاڑی کی پارکنگ پر دو روز سے جاری جھگڑے کا المناک اور افسوسناک انجام، فریقین نے ایک دوسرے پر فائرنگ کر دی اور دو قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں، صرف یہ ایک خبر کی بات نہیں ہے بلکہ اس قسم کے کئی واقعات جو آپس کے اختلافات کی وجہ سے جنم لیتے ہیں اور ان کا خاتمہ اکثر قیمتی جانوں کے ضیاع پر بھی ہوتا ہے، اگر دیکھا جائے تو یہ سب غصے کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس غصے کا سبب عدم برداشت ہے، عدم برداشت کی بے شمار وجوہات بیان کی جاتی ہیں، چاہے وہ نفسیاتی اور سماجی مسائل ہوں، غیرت ہو، خاندانی اقدار ہوں، سیاسی اختلافات یا کچھ اور، اس کا نتیجہ نہ معاشرہ کے حق میں اچھا ہوتا ہے اور نہ خود فرد کے لیے اس میں خیر کا کوئی پہلو ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں اکثر بچوں کے جھگڑے میں بڑوں کا کود جانا عام سی بات ہے اور اس کی وجہ سے بڑے بڑے حادثات جنم لیتے ہیں، پسند اور ناپسند کی شادی کا معاملہ ہو یا غیرت کے نام پر قتل اور غارت گری، ان سب کا جواز اپنے آپ سے ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔

بہرحال جو کچھ بھی واقعات ہوتے ہیں یہ سب غصے کی انتہائی کیفیت کی وجہ سے جنم لیتے ہیں، بحیثیت فرد ہماری ذمے داری ہے کہ ہم جہاں بھی رہتے ہیں وہاں ہم اخوت اور محبت کی فضا کے لیے اپنا کردار ادا کریں، سیاسی جماعتیں سیاسی اور نظریاتی اختلافات کو ذاتی و جماعتی دشمنیوں تک نہ پہنچنے دیں، اختلافات کہاں نہیں ہوتے ہیں لیکن جب ہم انہیں دشمنیوں میں بدل لیتے ہیں تو نتیجہ کسی کے حق میں بھی اچھا نہیں ہوتا، ہم جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرمؐ کے فرمان پر جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں تو پھر ہمیں نبی اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا بھی ہونا چاہیے، ’’ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے آپؐ نے فرمایا: غصہ نہ کیا کرو اس شخص نے کہا کچھ اور نصیحت فرمائیے آپؐ نے پھر یہی فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو اور کئی مرتبہ یہ بات دہرائی‘‘، اب ذرا 9 ستمبر اخبار کے اس واقعے پر دوبارہ غور فرما لیں اگر فریقین غصے سے بے قابو نہ ہوتے تو یہ المناک واقعہ جنم نہ لیتا، ذرا سوچیے کہ دو پڑوسیوں کے خاندانوں کا اب کیا ہوگا؟، ظاہر ہے کہ کسی خاندان پر ایک فرد کے جانے سے نہ جانے کتنے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آج کل ہمارے معاشرے میں جو صورتحال ہے اس میں تو یہ اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، ایسے واقعات اور نقصانات سے جو گزرتا ہے وہی محسوس کر سکتا ہے۔ (اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ آمین)

دیکھا گیا ہے کہ غصہ کے وقت انسان کی کیفیت بہت مختلف ہو جاتی ہے، اس کیفیت کا اس کے چہرے سے اور اس کے اعضاء سے اظہار بہت واضح ہوتا ہے جس میں چہرہ اور آنکھوں کا سرخ ہو جانا، ہاتھ پاؤں کا کانپنا اور زبان پر اس کا قابو نہ پانا، چیخ پکار کرنا وغیرہ وغیرہ، جن لوگوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو غصہ نہیں آتا یہ بات درست نہیں ہے، حلم و برد باری کی صفات کے حامل ہونے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے ایسی صفات سے آراستہ شخص کو غصہ نہیں آتا، فطرت انسانی میں غصہ کا جذبہ بھی ہے، قرآنی تعلیمات اور نبی کریمؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا دانش مند لوگ ہوتے ہیں جو ہوش مندی سے اپنے غصے پر قابو پاتے ہیں، اگر وہ غصے کا اظہار کرتے ہیں تو الفاظ کا چناؤ مناسب اور لہجہ مدھم رکھتے ہیں یعنی اپنے جسم کے اعضا اور اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہیں، غصے کی اس کیفیت کے حوالے سے ہمارے رب جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے ہمیں واضح ہدایات دی ہیں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوشحال جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور کو معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں‘‘۔ (آل عمران: آیت 134)،

سعودی عرب میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی دو فریقوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہو رہا ہے اور بات گالم گلوچ اور مر کٹائی تک پہنچ گئی ہے تو ضرور کوئی نہ کوئی شخص ان دونوں جھگڑنے والے افراد کے درمیان آکر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرے گا اور صلح کرانے کی کوشش کی ابتدا دونوں فریقوں کے درمیان آ کراس جملے سے کرے گا کہ ’’صلو علی النبی‘‘ ( نبی کریمؐ پر درود بھیجو) اور وہ یہ بتکرار کہے گا یہاں تک کہ جھگڑنے والے فریقین با آواز بلند یا زیر لب درود کے کلمات ادا کرتے ہیں اور اکثر یہ جھگڑے کا معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے، درود کے اثرات سے اللہ کی رحمت متوقع ہوتی ہے اور شیطانی اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔

غصہ کرنے کے انسان کی ذات پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ایک تو اس کی اپنی شخصیت مجروح ہوتی ہے اس پر غصے کے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ہر وقت وہ ایک اشتعال اور طیش کی حالت میں رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کی صحت پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، طبی طور سے غصہ کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ وہ ڈپریشن، الزائمر اور شوگر جیسے امراض کی وجہ بنتا ہے، غصے کی شدت کی وجہ سے بعض وقت انسان کی دماغی حالت معمول کے مطابق اور قابو میں نہیں رہتی اور اس بات کا بہت امکان ہوتا ہے کہ وہ غصے کی حالت میں کچھ ایسے فیصلے کر جائے جس پر وہ ہمیشہ کے لیے پچھتاتا رہ جائے۔

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

غصے کے وقت کے کچھ غلط فیصلے اگر دفتر میں ہوں تو انسان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے، غصے کے وقت کے غلط فیصلے اگر گھر کے حوالے سے یا گھر میں ہوں تو بیوی بچے بچھڑ جاتے ہیں، یہ غصہ اگر دوستوں کے درمیان ہو تو دوست احباب بچھڑ جاتے ہیں یہ غصہ دکانداروں میں ہونے کی وجہ سے دکاندار اچھے گاہکوں سے محروم ہو جاتے ہیں، ڈرائیور حضرات غصے کی وجہ سے یا غصے کی حالت میں حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایک اچھا خاصا مسلمان غصے کی حالت میں شریعت کے احکام کو پامال کرنے کا گناہ کر بیٹھتا ہے اور اسی غصے کی حالت میں غلط فیصلے کرتے ہوئے مسند اقتدار پہ بیٹھے حکمران اقتدار سے باہر ہو جاتے ہیں۔

چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا

ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ غصے کے سد باب کے لیے نبی کریمؐ کی ہدایات کو اپنے پلو سے باندھ لیا جائے، ہر وقت ان ہدایات کو ذہن میں رکھا جائے، کثرت سے استغفار اور درود کا ورد کیا جائے تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ: ان شاء اللہ فرد اور معاشرہ المناک انجام سے محفوظ رہ سکے، نبی کریمؐ نے غصے کے حوالے سے جو ہدایات دی ہیں ان میں سے کچھ کا مفہوم اور خلاصہ ہے ’’جو شخص اپنے غصے پر قابو پا لے اللہ تعالیٰ اسے عذاب سے محفوظ فرمائیں گے‘‘، ’’غصے سے، بچو جو شخص جس قدر اپنے غصے کو قابو میں رکھے گا اسی قدر اللہ کے غضب سے محفوظ رہے گا‘‘۔ ’’جب تمہیں غصہ آئے تو خاموش ہو جاو‘‘۔ ’’اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم پڑھنے سے غصہ جاتا رہے گا‘‘۔ ’’غصہ شیطان کی وجہ سے آتا ہے اور شیطان آگ سے بنا ہوا ہے اور آگ پانی سے بجھتی ہے اس لیے جب تمہیں غصہ آئے تو تم وضو کر لیا کرو‘‘۔