یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی معطلی کی سزا کے عدلیہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، عدلیہ کی نیک نامی میں چار چاند لگیں گے یا جو تھوڑی بہت روشنی ہے وہ بھی ماند پڑ جائے گی، کیونکہ یہ فیصلہ غیر متوقع ہرگز نہیں تھا، عزت مآب چیف جسٹس پاکستان، مذکورہ فیصلہ پہلے ہی سنا چکے تھے تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن جشن منا رہے ہیں، بھنگڑے ڈال رہے ہیں مگر تالیاں بجانے والے سب سے آگے ہیں، حالانکہ یہ موقع تالیاں بجانے کا نہیں بغلیں بجانے کا اور سر پیٹنے کا ہے کیونکہ سزا کی معطلی سے جرم پر کوئی فرق نہیں پڑتا جرم برقرار رہتا ہے، یہاں ہمیں ایک واقعہ یاد آرہا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ایک محکمہ کے سربراہ نے اپنی ماتحت خاتون آفیسر کو جنسی طور پر حراساں کرنا شروع کر دیا۔ خاتون آفیسر نے بہت کوشش کی کہ دفتر کا ماحول خراب نہ کیا جائے مگر وہ صاحب فطرتاً ڈھیٹ اور اڑیل واقع ہوئے تھے خاتون کی خاموشی اور درگزر کو اپنی کامیابی اور خاتون کی رضامندی سمجھ بیٹھے، مجبوراً خاتون کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا حالات واقعات اور شواہد کی بنیاد پر عدلیہ نے سزا سنا دی سزا کے خلاف اپیل دائر کی گئی مذکورہ آفیسر کے تعلقات اہم شخصیات سے تھے، ان کی کوششوں اور سفارشات سے سزا معطل ہو گئی، موصوف نے ملازمت کی بحالی کی درخواست دائر کر دی، انہیں بتایا گیا کہ آپ کی سزا معطل ہوئی ہے آپ الزام سے بری نہیں ہوئے، سو نااہلی ابھی برقرار ہے آپ کی بحالی ممکن نہیں، عمران خان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، ان کی سزا معطل کی گئی ہے لیکن وہ کیس سے بری نہیں ہوئے۔
اس پس منظر میں جشن منانا، مٹھایاں بانٹنا سب کچھ بے معنی ہے، حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین معزول وزیر اعظم عمران خان سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرح مختلف مقدمات میں اندر باہر ہوتے رہیں گے، اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو احساس ہو گیا ہے کہ سیاست شجر ممنوع ہوتی جارہی ہے، اس لیے کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح عمران خان کو علاج وغیرہ کے بہانے بیرون ملک برطانیہ وغیرہ بھیج دیا جائے تاکہ اندر باہر کا یہ سلسلہ بند ہو سکے مگر قرآئین بتارہے ہیں کہ اب یہ معاملہ سیاسی قوتوں کے دائرہ اختیار سے باہر ہو گیا ہے، اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ بشریٰ بی بی گرفتار کر لی جائیں۔
عمران خان کا المیہ یہ بھی ہے کہ مقتدر قوتوں نے ان کے غبارے میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھر دی تھی، عام مشاہدہ یہی ہے کہ غبارے میں زیادہ ہوا بھر دی جائے تو وہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے مگر رزقِ خاک ہونا اس کا مقدر بن جاتا ہے، حالات اور واقعات اس حقیقت کے بھی مظہر ہیں کہ عمران خان کا برسر اقتدار آنا ان کی اہلیت کا سبب نہیں تھا، بلکہ مقتدر قوتیں سیاستدانوں سے مایوس ہو گئی تھیں، باری باری کے کھیل سے اکتا گئی تھیں انہیں کسی ایسی شخصیت کی تلاش تھی جو عوام و خواص میں مقبول اور سب کے لیے قابل قبول ہو، تلاش بسیار کے بعد عمران خان ان کی سوچ کا مرکز و محور بن گئے، کافی سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ عمران خان سیاستدانوں کا متبادل ثابت ہو سکتے ہیں، اس تناظر میں ہم نے کہا تھا کہ عمران کان کی وزارتِ عظمیٰ ایک آزمائش ہے، اگر وہ اس آزمائش میں کامیاب قرار پائے تو آنے والے پانچ برس بھی عمران خان کی کٹ بک پر ایشو کر دیے جائیں گے، اگر ناکام ہوئے تو آئینی مدت بھی پوری نہیں کر سکیں گے، مقتدار قوتوں نے بہت کوشش کی کہ عمران خان ایک کامیاب سیاستدان بن جائیں، مگر خان صاحب کے مشیروں نے باور کرادیا کہ وہ مقتدر قوتوں کی واحد آپشن ہیں، ان کے مدِ مقابل کوئی نہیں۔
خیر خواہوں نے عمران خان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ لوگ تمہارے خیر خواہ نہیں کیونکہ خیر خواہی ان کی فطرت کے منافی ہے، یہ جی حضوری پر یقین رکھتے ہیں، چڑھتے سورج کی پوجا ان کا مسلک ہے، ان سے دور رہو، بہت سمجھایا گیا کہ
یہ جو بندگانِ نیاز ہیں، یہ تمام ہیں وہی لشکری
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی، وہ ترے حضور میں آگئے