آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ذیابیطس کے غیر تشخیص شدہ مریضوں کی تلاش شروع

3254

کراچی(رپورٹ:منیرعقیل انصاری) پاکستان میں ذیابیطس کے غیر تشخیص شدہ کروڑوں مریضوں کی تلاش کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی “ڈایابوٹ” روشناس کرا دیا گیا۔

ڈایابوٹ مصنوعی ذہانت پر مشتمل پروگرام ہے جو بیک وقت ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے سوالات سن کر ذیابیطس کے غیر تشخیص شدہ مریضوں کو مرض کی شناخت اور متعلقہ ڈاکٹروں سے ملانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار ڈسکورنگ ڈائبٹیز کے پروجیکٹ لیڈر سید جمشید احمد نے مقامی ہوٹل میں مصنوعی ذہانت کے پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

 

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ بیماریوں کی روک تھام کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔ ذیابیطس سے بچاؤ کے لیے ہمیں اپنے طرز زندگی میں بدلاؤ لانا ہوگا۔ ڈسکورنگ ڈائیبٹیز دراصل پاکستان بچانے کا مشن ہے۔

انٹیلیجنس بیسڈ ڈائیابوٹ کی تعارفی تقریب میں پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے نائب صدر ڈاکٹر علی اصغر، ڈسکورنگ ڈائیبٹیز کے سربراہ سید جمشید احمد، معروف اینکر پرسن اور ڈسکورنگ ڈائیبٹیز کے برانڈ ایمبیسیڈر وسیم بادامی، عیسیٰ لیبارٹریز کے سربراہ ڈاکٹر فرحان عیسیٰ، فارمیوو کے ایم ڈی ہارون قاسم، ڈسکورنگ ڈائبٹیز کے عبدالصمد اور ڈاکٹر ندیم اشرف نے خطاب کیا۔

 

پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے نائب صدر ڈاکٹر علی اصغر نے کہا کہ دنیا بھر میں ذیابیطس کے پھیلاؤ میں 10 سال پہلے ہم 10 ویں نمبر پر تھے، اب تیسرے نمبر پر آگئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ساڑھے 3 کروڑ پاکستانی شوگر کے مرض کا شکار ہیں، جو لوگ ابھی ٹریس نہیں ہوئے وہ شامل کرلیں تو شوگر کے مریضوں کی تعداد 6 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 26 فیصد آبادی زیابیطس کےمرض میں مبتلا ہے جو کسی بھی آفت سے کم نہیں۔

ڈاکٹر علی اصغر نے بتایا کہ اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس بیسڈ اس ڈائیابوٹ کے ذریعے ہم اپنا رسک فیکٹر خود جان سکتے ہیں، ہمیں اب ڈاکٹر کے پاس جانا نہیں پڑے گا۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے اب یہ سب گھر بیٹھے معلوم ہو سکتا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ اگر ڈائبٹیز کنٹرول رہے گی تو پیچیدگیاں نہیں ہوں گی اور اس کے نتیجے میں السر نہیں ہوگا۔ پاؤں کٹنے کی نوبت آئے گی نہ گردے فیل ہوں گے۔ ہم اگر کھانے پینے میں میٹھی چیزوں سے پرہیز، بیکری پروڈکٹس سے خود کو دُور اور کولڈ ڈرنکس ترک کردیں تو ہم اس بیماری سے بچ سکتے ہیں۔

ڈسکورنگ ڈائبٹیز پروجیکٹ کے سربراہ سید جمشید احمد نے بتایا کہ اگر شوگر کا مرض اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو پاکستان کی 50 فیصد آبادی شوگر کا شکار ہوجائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ عوامی آگاہی کے لیے سوشل میڈیا پر وڈیوز بنا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں لوگ اسکریننگ کر رہے ہیں اور ہم ایسے لوگوں کو تلاش کر رہے ہیں جنہیں اپنی زیابہطس کا علم نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے جو کالز ٹال فری نمبر پر آتی تھیں اب ڈائیابوٹ ان سارے سوالوں کا جواب دے سکے گا۔ اس سے جو سوال پوچھیں وہ سب جواب دے گا۔

ڈائیابوٹ یہ بھی بتا دے گا کہ کیا ہم ایک آم کھا سکتے ہیں وہ یہ تک بتا دے گا کہ ایک دن میں اپ نے کتنی کیلوریز استعمال کی ہیں جب کہ اپ کو کتنی کیلوریز کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب مل کر شوگر کو روک کر سکتے ہیں، اس کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

عیسیٰ لیبارٹری اینڈ ڈائگنوسٹک سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر فرحان عیسیٰ نے کہا کہ ڈسکورنگ ڈائیبٹیز اصل میں پاکستان بچانے کا مشن ہے۔ اسی لیے ہم بھی ڈسکورنگ ڈائیبٹیز کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ ہم انہیں اصل لاگت کے مطابق ٹیسٹ کرکے دیں گے اور جو ٹیسٹ نہیں کرا سکتا انہیں فری میں کرکے دیں گے جو فارمیوو ادا کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ فارمیوو زیابیطس کے علاج سے زیادہ اس کی روک تھام پر کام کر رہی ہے۔ لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ زیابیطس جسم کے ہر حصے کو متاثر کرتی ہے۔ اس لیے ڈسکورنگ ڈائیبٹیز صرف آگہی ہی نہیں ہماری قوم کو صحت مند بنائے گی۔

وسیم بادامی کا کہنا تھا کہ جب بھی زیابیطس کے نئے اعداد و شمار دیکھتا ہوں تو پریشان ہوجاتا ہوں، کچھ چیزیں نظر نہیں آتی جیسے غربت مہنگائی نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیابیطس کے بڑھتے ہوئے نمبر پر ہمیں کوئی فکر نہیں ہے، اتنا بڑا حادثہ ہوگیا اور ہمیں فکر ہی نہیں ہے۔ مجھے اس کا حصہ بننے پر فخر ہے کیونکہ یہ ایک نوبل کاز ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور چیٹ جی پی ٹی ڈائنامکس کو تبدیل کر رہے ہیں اس کے ساتھ نہ چلے تو ہم پیچھے رہ جائیں گے۔

دوا ساز ادارے فارمیوو کے مینجنگ ڈائریکٹر ہارون قاسم کا کہنا تھا کہ 2002 میں جب فارمیوو نے سفر شروع کیا پہلے دن سے کوشش تھی جو کام بھی کریں اس میں مقصدیت شامل ہو۔ ہم دوائیں تو بیچتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے ٹاپ کوالٹی دوائیں ہوں جس سے مریض کو افاقہ ہو، لیکن ساتھ ساتھ صحت مند سوسائٹی کے لیے ہی کام کریں۔

 

انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کے خاتمے کے لیے مل کر کوشش کرنی ہے ہمیں حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی ڈائٹری عادات بدلنی ہوں گی کیونکہ ڈائیبٹیز ایک خاموش قاتل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اسے اسکول کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یہ سفر طویل بھی ہے اور مشکل بھی، اسے ہم سب کو مل کر طے کرنا ہوگا۔