بدشگونی کے شرک ہونے کے بارے میں علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ’’اگر کسی نے یہ اعتقاد کیا کہ نفع پہنچانے یا ضرر کو دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز مستقل مؤثر ہے تو یہ شرکِ جلی ہے، آپ نے اس کو شرک اس لیے فرمایا کہ وہ یہ اعتقاد کرتے تھے: جس چیز سے انہوں نے بدفالی لی ہے، وہ مصیبت پہنچانے میں ذاتی طور پرمؤثر ہے اور مؤثر بالذات مانے بغیر ان اسباب کا لحاظ کرنا شرکِ خفی ہے، خصوصاً جبکہ اس کے ساتھ جہالت اور ضُعفِ اعتقاد بھی ہو، تو اس کا شرکِ خفی ہونا اور بھی واضح ہے‘‘۔ (مرقاۃ) مؤثر بالذات ہونے کا معنی یہ ہے: جب وہ چیز ظاہر ہو تو نفع یا نقصان لازم ہو، جبکہ عام طور پر عالَمِ اسباب میں اسباب مؤثر بالذات نہیں ہوتے، جیسے دعا اور دوا وغیرہ، جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو تووہ مؤثر ہوجاتے ہیں اور اگراس کی مشیت نہ ہو تو مؤثر نہیں ہوتے۔
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ’’خلاصہ یہ ہے: تمام دن اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور کوئی دن (اپنی ذات میں) نامسعود اور نامبارک نہیں ہے، اسی طرح تمام انسان اور اشیاء اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کوئی چیز اپنی ذات میں منحوس نہیں ہے۔ پس حادثات و آفات، بلائوں اور مصیبتوں کے نازل ہونے میں کسی چیز کا دخل نہیں ہے، ان تمام چیزوں کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہے، کسی دن یا کسی چیزکا کسی شر کے پیدا ہونے یا کسی آفت کے نازل ہونے میں کوئی دخل اور اثر نہیں ہے۔ ہرچیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور بس! اسی لیے کسی بھی جائز اور صحیح کام کو کسی دن اور کسی چیز کی خصوصیت کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں ہے اور کوئی دن اپنی ذات میں نحس نہیں ہے‘‘۔ (شرح مسلم)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’(کفار سے کہا جائے گا:) اور تم ان لوگوں کے گھروں میں رہتے تھے، جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر خوب واضح ہوچکا تھا کہ ہم نے ان (ظالموں) کے ساتھ کیسا معاملہ کیا تھا اور ہم نے تمہیں سمجھانے کے لیے کئی مثالیں بیان کردی تھیں‘‘، (ابراہیم: 45) علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ اُن کے اس قول کو ردّ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ’’کیا تم نے اس سے پہلے یہ قسمیں نہیں کھائی تھیں کہ تم پر بالکل زوال نہیں آئے گا‘‘، یعنی کیا اس سے پہلے تم قیامت اور مر کر دوبارہ زندہ کیے جانے اور سزا کے دن کا انکار نہیں کرتے تھے، جبکہ تمہیں ہمارے رسولوں نے بتادیا تھا کہ پچھلی امتوں میں سے جنہوں نے ہمارے پیغام کو جھٹلایا، ان پر کس قسم کا عذاب آیا تھا اور اس سے پہلے تم قومِ ثمود کے گھروں میں تباہی کے آثار دیکھ چکے ہو، تو تم نے ان کے آثار دیکھ کر عبرت کیوں نہ حاصل کی‘‘۔
علامہ ابن بطال لکھتے ہیں: ’’پس (ماضی کی عذاب یافتہ قوموں کے آثار دیکھ کر عبرت نہ پکڑنے کے سبب) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر غضب نازل فرمایا، کیونکہ عبرت پکڑنے کے بجائے انہوں نے ان کے گھروں کو ٹھکانا بنالیا تھا۔ پس جس جگہ صحابۂ کرام طلوعِ آفتاب تک سوتے رہ گئے تھے (اور فجر کی نماز وقت پر نہ پڑھ سکے)، تو نبی کریمؐ نے اس جگہ کو منحوس قرار دیا اور آپ ؐ نے اس جگہ فجر کی قضا نماز نہیں پڑھائی، بلکہ آگے جاکر پڑھائی اور فرمایا: اس جگہ شیطان کا اثر ہے، سو جس جگہ کسی قوم پر عذاب نازل کر کے اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا ہو، وہاں نماز نہ پڑھنا بہتر ہے‘‘، (شرح ابن بطال) علامہ ابن بطال نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے، وہ درج ذیل ہے:
’’ابو قتادہ روایت کرتے ہیں: ہم ایک رات نبیؐ کے ساتھ روانہ ہوئے، بعض لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! کاش آپ ہمیں رات کے آخری حصے میں اس جگہ ٹھیرالیں، آپؐ نے فرمایا: مجھے خطرہ ہے کہ تم نماز کے وقت سوئے رہوگے، سیدنا بلال نے کہا: میں آپ سب کو بیدار کروں گا، پھر وہ سب لیٹ گئے، سیدنا بلال نے اپنی سواری کے ساتھ ٹیک لگالی، پھر ان پر نیند غالب آگئی اور وہ سوگئے، پھر نبیؐ بیدار ہوئے، اس وقت سورج کا ایک کنارہ طلوع ہوچکا تھا، آپؐ نے فرمایا: بلال! تمہارا وہ قول کہاں گیا، انہوں نے عرض کیا: مجھے ایسی گہری نیند اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی، آپؐ نے فرمایا: بے شک اللہ جب چاہتا ہے تمہاری روحوں کو قبض کرلیتا ہے اور جب چاہتا ہے تمہاری روحوں کو لوٹا دیتا ہے، بلال! کھڑے ہوکر لوگوں کے لیے اذان دو، پھر آپ نے وضو کیا، پھر جب سورج بلند ہوگیا اور سفید ہوگیا تو آپؐ نے کھڑے ہوکر نماز پڑھائی‘‘۔ (بخاری) موطا امام مالک:36 میں اس قدر اضافہ ہے: ’’آپؐ نے صحابۂ کرام کو وہاں سے کُوچ کرنے کا مشورہ دیا، پھر آگے چل کر کسی مقام پر آپ نے حکم دیا: سواریوں سے اتر کر وضو کرو، پھر آپ نے ان سب کو نماز پڑھائی اور سیدنا بلال کے متعلق فرمایا: ’’شیطان بلال کے پاس آیا، جبکہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، پھر اُنہوں نے ٹیک لگالی اور شیطان انہیں مسلسل تھپکی دیتا رہا، جیسے بچے کو (سلانے کے لیے) تھپکی دی جاتی ہے حتیٰ کہ بلال کو نیند آگئی‘‘۔
الغرض نبیؐ اس وادی میں نماز کے فوت ہونے کی وجہ سے اس سے آگے نکل گئے، اس کی وجہ آپؐ نے خود بیان فرمائی کہ اس وادی میں شیطان ہے، نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپؐ نے وہاں اسی طرح نماز نہیں پڑھی، جیسا کہ آپؐ نے سیدنا علی کو بابل کی سرزمین پر نماز پڑھنے سے منع کیا تھا، حدیث میں ہے: ’’ابوصالح غِفاری بیان کرتے ہیں: سیدنا علیؓ سفر کرتے ہوئے بابل کے علاقے سے گزرے، ان کے پاس عصر کی اذان دینے کے لیے موذن آیا، سیدنا علی نے توقف کیا حتیٰ کہ اس جگہ سے نکل گئے، پھر انہوں نے مؤذن کو اقامت کہنے کا حکم دیا اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا: مجھے میرے حبیب نے منع فرمایا ہے کہ میں قبرستان میں نماز پڑھوں اور مجھے آپ نے سرزمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس جگہ پر لعنت کی گئی ہے‘‘، (ابودائود) ایک روایت میں ہے: ’’(سیدنا علی نے فرمایا): میں اس جگہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا جس کو تین بار زمین میں دھنسایا گیا ہو‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
’’رسول اللہؐ نے فرمایا: ان عذاب یافتہ لوگوں (قومِ ثمود) کے پاس سے صرف روتے ہوئے گزرنا، پس اگر تم روتے ہوئے نہ گزر سکو تو ان کے پاس داخل نہ ہونا، کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آجائے جو ان پر آیا تھا‘‘۔ (بخاری) اس حدیث کی شرح میں علامہ عینی لکھتے ہیں: ’’یہ قومِ ثمود کے گھر تھے، یہ لوگ سیدنا صالحؑ کی قوم تھے، اَلْحِجْر شام اور حجاز کے درمیان ایک شہر ہے‘‘۔
اس حدیث میں یہ دلیل ہے: ان لوگوں کے گھروں میں ان کے بعد کوئی نہیں رہتا تھا، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص وہاں ساری عمر روتا رہے اور رسول اللہؐ نے بغیر روئے ان کے گھروں میں داخل ہونے سے منع فرمادیا، پس اس حدیث میں وہاں ٹھیرنے اور اس جگہ کو وطن بنانے سے آپ نے منع فرمایا ہے، اس حدیث میں یہ دلیل ہے: ان عذاب یافتہ لوگوں کے شہر سے تیزی سے گزرنا چاہیے، جس طرح رسول اللہؐ وادی محسّر سے تیزی سے گزرے تھے، کیونکہ اس جگہ اصحابِ فیل کو ہلاک کیا گیا تھا، آپ نے اس جگہ سے روتے ہوئے گزرنے کا حکم اس لیے دیا تھا تاکہ ان پر عذاب نازل ہونے کی وجہ پر غورو فکر کریں، اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے: جس جگہ زمین میں دھنسایا گیا ہو یا عذاب نازل کیا گیا ہو، وہاں نماز پڑھنا مکروہ ہے‘‘۔ (عمدۃ القاری) ایک حدیث میں ہے:
’’رسول اللہؐ جب غزوۂ تبوک میں اَلْحِجْر وادی میں پہنچے تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا: نہ اس کے کنویں سے پانی پیو اور نہ اس سے (اپنے جانوروں کو) پانی پلائو، صحابہ نے عرض کیا: ہم تو اس کے پانی سے آٹا گوند چکے ہیں اور (اپنی ضرورت کے لیے) پانی لے چکے ہیں،آپؐ نے فرمایا: اس آٹے کو پھینک دو اور پانی کو گرادو‘‘۔ (بخاری)
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ’’حافظ ابن عبدالبر نے کہا: ہمارے نزدیک اس باب میں مختار قول یہ ہے: اس وادی میں اور کسی بھی زمین کے حصے پر نماز پڑھنا جائز ہے، جب تک کہ وہاں پر کسی نجاست کا یقین نہ ہو اور جن احادیث میں یہ مذکور ہے کہ مقبرہ میں یا سرزمین بابل میں یا جس جگہ شیطان کا اثر ہو یا اونٹوں کے باڑے میں یا جو جگہ ملعون ہو، وہاں نماز نہ پڑھی جائے، وہ تمام احادیث اس حدیث سے منسوخ ہیں جس میں تصریح ہے کہ میرے لیے تمام روئے زمین کو مسجد بنادیا گیا ہے، وہ حدیث یہ ہے:
’’رسول اللہؐ نے فرمایا: مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں: ہر نبی کو ایک خاص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے ہر سرخ اور سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، میرے لیے مالِ غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے، مجھ سے پہلے وہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا، میرے لیے تمام روئے زمین کو پاک، پاک کرنے والی اور مسجد بنادیا گیا ہے، لہٰذا جو شخص جہاں بھی نماز کا وقت پائے، وہیں نماز پڑھ لے، چھے ماہ کی مسافت سے میرا رعب طاری کردیا گیا ہے اور مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے‘‘۔ (مسلم، نعمۃ الباری)
خلاصۂ کلام یہ کہ رسول اللہؐ نے اَلْحِجْرکی بستی میں نہ ٹھیرنے، وہاں کے پانی سے فائدہ نہ اٹھانے اور وادیٔ مُحَسِّر سے تیزی سے گزرنے کا جو حکم فرمایا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو ان مقامات پر ٹھیرے گا، اس پر ان کی نحوست اثر انداز ہوگی اور اس کے آثار کسی ناخوشگوار صورت میں ظاہر ہوں گے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ایسے مقامات میں سیر وسیاحت کے لیے نہ جانا چاہیے، نہ وہاں ٹھیرنا چاہیے، بلکہ ان سے عبرت پکڑنی چاہیے اور ان قوموں کے انجام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کے اُن کرتوتوں سے باز رہنا چاہیے، جو اُن پر نزولِ عذاب کا سبب بنے، یہ بھی کہا جاسکتا ہے: رسول اللہؐ کو وحی کے ذریعے وہاں ٹھیرنے سے منع فرمایا گیا اور یہ انھی مقامات تک محدود رہے گا جن کی بابت آپ نے بتایا، ان پر دوسرے مقامات کو قیاس نہیں کیا جائے گا۔