پاکستان میں گیس کی شدید قلت کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ کم و بیش ایک دہائی سے سرد خانے میں پڑا ہے، ایران کی جانب سے پائپ لائن کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ آصف علی زرداری اپنے دور صدارت میں ایران جا کر اس کا افتتاح بھی کر چکے ہیں، لیکن پاکستان کی جانب ابھی تک کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی۔ چند ماہ قبل ایران کی جانب سے پاکستان کو معاہدے میں تاخیر پر طے شدہ جرمانے کی وارننگ بھی دی گئی تھی جو 18ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے، اگر ایران اس معاملے میں کسی عالمی فورم پر چلا گیا تو پاکستان کے لیے جرمانے سے بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک جانب ملک میں گیس کی شدید قلت ہے اور دوسری جانب سستی اور فوری گیس کی فراہمی سے فرار حاصل کیا جارہا ہے، وہ بھی ایک پڑوسی اور دوست ملک سے۔ حکومت کی جانب سے معاملہ امریکی پابندیوں کے سر ڈالنا بھی محل نظر ہے، کیونکہ ابھی چند ہفتے قبل ایران سے بجلی کی خریداری کا معاہدہ ہوا اور بجلی کی ترسیل شروع بھی ہو چکی ہے، کیا اس وقت امریکی پابندیاں نہیں تھیں؟ دوسری جانب ان تمام پابندیوں کے باوجود بھارت نہ صرف ایران سے گیس حاصل کر رہا ہے بلکہ اس نے ایران سے سستا پٹرول خرید کر مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے اپنی معیشت کھڑی کر لی ہے۔ حیرت تو اس پر ہے کہ کیا یہ پابندیاں بھارت کے لیے نہیں ہیں؟ اسی طرح تو پاکستان چین اور روس سے بھی بہت کچھ حاصل کر رہا ہے۔
امریکا چین اور روس سے کاروبار کرنے والے ممالک پر بھی پابندیاں لگا رہا ہے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل امریکی دباؤ پر سی پیک اور چین کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے پیچھے ہٹنے کی نوبت نہیں آئے گی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدہ صرف ایک تجارتی معاہدہ نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے اعتماد اور اعتبار کا معاملہ بھی ہے۔ امریکی دباؤ پر ہم اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ ایک عرصہ سے کیا گیا معاہدہ پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کل چین اور روس سمیت کوئی بھی ملک اعتماد نہیں کرے گا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم امریکا کی غلامی سے نجات حاصل کریں، اپنے اقتدار اعلیٰ کوگروی نہ رکھیں، ورنہ ہمارے دوستوں میں سے کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا اور معاشی بحالی کے تمام منصوبے دھرے رہ جائیں گے۔ قومی اداروں کو چاہیے کہ اس عاقبت نا اندیشانہ فیصلے کو واپس لیں، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کو مکمل کریں، سرمایہ کاری کے منصوبوں میں اسے بھی شامل کریں۔ اگر معاملہ تاخیر کے باعث ایران کی جانب سے جرمانہ عائد ہونے کا ہے تو اس پر الگ سے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعہ سے راستہ نکال لینا چاہیے۔ پہلی تاخیر کی غلطی کو درست کرتے ہوئے دوسری پہاڑ جیسی غلطی نہیں کرنی چاہیے اس سے بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔
ایران اور پاکستان دونوں برادر اسلامی ملک ہونے کے ناتے ایک دوسرے سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں جب کہ ہماری شناخت ہمارا مسلک نہیں اسلام ہے اور ہمیں اسلام کی حقیقی روح دنیا کو دکھانا ہوگی۔ پاکستان اور ایران اس خطے کی اہم قوتیں ہیں، دونوں ملک بہت سے شعبوں میں ایک دوسرے کی مددکرسکتے ہیں، خصوصاً ایران کے پاس توانائی وافر مقدار میں ہے جبکہ پاکستان کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے، پاکستان ایران سے گیس اور تیل لے کر توانائی کی قلت پر قابو پاسکتا ہے تاکہ پاکستان کو توانائی کے جس بدترین بحران کا سامنا ہے اس سے نکل سکے۔ ایران برادر ہمسایہ ملک، تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے پاکستان کا انتہائی اہم دوست ہے، دونوں ممالک کے مابین کئی جہتیں یکساں ہیں، باہمی سطح پر مزید بہتر مستقبل اور عوامی خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور 1965ء کو پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے طیاروں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنے ہوائی اڈے پاکستان کی تحویل میں دے دیے تھے۔ دوسری طرف افغانستان دنیا بھر میں واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو اقوام متحدہ کا رکن بنائے جانے کی مخالفت کی تھی اور افغانستان اکثر اوقات اب بھی پاکستان کے خلاف نہایت زہریلے بیانات دیتا رہتا ہے۔ ایران پاکستان دو برادرملک ہونے کے باوجود ان کے مابین تجارتی حجم محض 50 کروڑ ڈالر ہے جو بہت کم ہے۔ دوطرفہ بینکاری کے قیام سے تجارتی حجم 2 ارب ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کی معیشت کوفائدہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت ایران کو چاول اور ٹیکسٹائل مصنوعات بر آمد کرنے کے وسیع تر مواقع موجود ہیں جس سے مقامی صنعتوں کو فروغ مل سکتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان ایران دو ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود معیشت کے مختلف شعبوں میں تعاون کی گنجائش وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید مضبوطی اور گہرائی پیدا ہوگی بلکہ دونوں ملکوں کے عوام بھی خوش حال ہوں گے۔ جبکہ ایرانی صدر نے سی پیک میں شامل ہونے کے لیے گہری دلچسپی کا اظہار بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ یاد رہے کہ ایرانی صدر نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعے پر چینی صدر سے ملاقات میں بھی سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پچھلے دنوں پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ چاہ بہار بندرگاہ گوادر پورٹ کو نقصان پہنچائے گی۔ جبکہ پاکستان نے ان خدشات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہ بہار گوادر پورٹ کے مقابلے میں چھوٹی ہے اور یہ دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کی حریف نہیں حلیف اور مددگار ثابت ہوں گی۔ یہی بات چینی سفیر نے بھی کہی کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے گوادر بندرگاہ کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ گوادر پورٹ کا ٹھیکہ اور وہاں ہر طرح کے ترقیاتی کام کی ذمے داری چین کی ہے۔ گوادر پورٹ کو اگر چاہ بہار سے نقصان پہنچا تو سب سے پہلے ایران آواز اٹھاتا۔ پاکستان میں ایسی قوتیں ہیں جن کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان ایران میں دشمنی ہو جائے۔ ان تمام سازشوں کے باوجود مقام شکر ہے کہ پاکستانی آرمی کہہ چکی ہے کہ ایران ہمارا اسلامی برادر ہمسایہ ملک ہے اور ایران کے ساتھ دوستی پر کسی بھی طرح ’’سمجھوتا‘‘ نہیں ہو سکتا۔