گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی بوتل کا ایسا جن جسے سیاسی اور تزویراتی ضرورتوں کے تحت نکالا اور واپس بند کیا جاتا ہے۔ پچھلے چند برس میں جب ملک میں امن وامان اور استحکام ترجیح اول تھا تو اس طرح کے تمام چھوٹے بڑے جن بوتلوں میں بند ہونے لگے تھے۔ اختلافات وقتی ہوں یا تاریخی لمحہ موجود کی پیداوار ہوں یا صدیوں کا ترکہ انسانی معاشرے کی ایک حقیقت ہیں۔ ان اختلافات کو اُچھالے اور ہوا دیے بغیر بھی انسان زندگی گزار سکتا ہے یہ اس سے بھی بڑی حقیقت ہے۔ دنیا کے بیش تر ملکوں میں امریکا اور برطانیہ میں مسلمان اپنی تاریخی اختلافات کے باوجود ایک کمیونٹی کے طور پر زندگی گزارتے ہیں۔ ایک ایسی سوسائٹی جس کا اختلاف کو اُبھارنے اور پرتشدد رنگ دینے میں سراسر اجتماعی نقصان ہو تو وہاں اچانک اختلافات کو ہوا دینا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان میں کشیدگی اس قدر بڑھ گئی ہے اور کینیڈا کے بعد برطانیہ اور امریکا نے بھی اپنے شہریوں کے لیے خطرے کا الرٹ جاری کیا اور اپنے شہریوں کو ان علاقوں کا سفر کرنے سے منع کردیا ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے تو یہ کہہ کر مستقبل کی صورت گری بھی بیان کر دی ہے کہ خطے میں پرامن ارادے کے ساتھ منعقد کردہ اجتماعات بغیر کسی انتباہ کے پرتشدد بھی ہوسکتے ہیں۔ اسکردو اور دیامر میں مزید مظاہروں، سڑکوں کی بندش، موبائل وانٹرنیٹ کی بندش کا امکان ہے۔ مغربی ملکوں کی طرف سے خطرے کی ان گھنٹیوں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی جو تھوڑی بہت ساکھ بچ گئی ہے اسے بھی ایک تشدد کا شکار اور خوفناک تقسیم کی زد میں آئے ہوئے ملک کے طور پر غارت کر دیا جائے۔ اس طرح کے الرٹس کا اثر ساکھ پر تو پڑتا ہی ہے اور ساکھ کبھی بھی پاکستانی حکمرانوں کا مسئلہ نہیں رہی وہ ’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ کے اصول پر کاربند لوگ ہیں مگر اس کا اثر سیاحت پر پڑنا لازمی ہے اور سیاحت گلگت بلتستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ لاکھوں مقامی افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔
عین اس وقت کہ جب سیاحت عروج پر تھی گلگت بلتستان کے خرمن امن میں ایک چنگاری پھینک دی گئی اور اسے ہوا دینے کے لیے مغربی ملکوں اور سفارت کاروں نے بیانات دینا بھی شروع کیے۔ گلگت میں جاری ایک مظاہرے میں حالات کے ردعمل میں ایک جملہ ایسا ادا ہوا جس کو بھارت میں اپنی پسند کے معانی اور مفاہیم پہنائے جا رہے ہیں۔ یہ ایک عالم دین کا یہ جملہ تھا کہ اگر ہمارے لیے شاہراہ قراقرم کو پرامن رکھنا ممکن نہیں تو کارگل روڈ کھول دی جائے۔ کارگل روڈ وہی ہے جو لداخ اور کارگل کو جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا نے اس کی تشریح یہ شروع کی کہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے مقبوضہ علاقوں سے ملنے کی بات کی ہے۔ یہ تو بہرحال جوش ِ جذبات میں کہا گیا ایک جملہ ہے مگر بھارت اس تاک میں ہے کہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے لوگ اس قدر عاجز آجائیں کہ اس کے لیے مشرقی پاکستان کی طرح حالات سے فائدہ اُٹھانا آسان ہوجائے۔ چند برس قبل نریندر مودی کا یہ اعلان بہت معنی خیز تھا کہ ہم گلگت بلتستان اور آزادکشمیر پر اب حملہ نہیں کریں گے ہم اپنے علاقوں کا میعار زندگی اس قدر بلند کریں گے وہ لوگ خود ہمارے ساتھ ملنے کا مطالبہ کریں گے۔ یہ اکشے کمار کی طرح نریندر مودی کی بڑھک نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی لازمی ہو رہی ہوگی کیونکہ برسوں پہلے جب بھارتی لیڈر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کے دعوے اور اعلانات کرتے تھے تو انہیں مذاق میں اُڑایا جاتا تھا کہ کس طرح بھارت ایک مسلمہ طور پر متنازع خطے کی حیثیت تبدیل کر سکتا ہے اور پاکستان کے ہوتے ہوئے ایسا کیونکر ممکن ہے؟ مگر ایسا ہو گیا اور سب ہاتھ ملتے اور منہ دیکھتے رہ گئے۔ اب ساری امیدیں نیویارک میں اقوام متحدہ کی دفتر سے ہٹ کر دہلی کی عدالت عظمیٰ سے وابستہ ہو کر رہ گئی ہیں اس لیے بھارتیوں کے اعلانات اور دعووں کو ان کی ذہنیت اور منصوبہ بندی کے آئینے میں دیکھنا چاہیے۔
گلگت بلتستان سی پیک کا زیر پوائنٹ ہے۔ سی پیک مخالف اور چین بیزار عالمی قوتوں کے لیے سارے فساد کی جڑ گلگت بلتستان ہے۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری گلگت بلتستان کا اسٹیٹس کو ٹوٹے گا تو سی پیک اپنی موت آپ مرجائے گا۔ ان قوتوں کے لیے آسان نسخہ تو یہ ہے گوادر میں وقت اور وسائل ضائع کرنے کے بجائے گلگت بلتستان پر ہی ساری توجہ مرکوز کی جائے۔ اس بڑے کھیل نے گلگت بلتستان کی حسیاسیت کو بڑھا دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ گلگت بلتستان کی اس حساسیت کے پیش نظر اس خطے کے عوام کے مسائل کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہ دیا جاتا۔ قومی وسائل میں اسے اپنا جائز حصہ ملتا۔ اس علاقے کو سیاسی اور معاشی استحکام کے حصول میں مدد فراہم کی جاتی تاکہ اس خطے کے عوام کی برسوں پرانی سیاسی محرومیوں کا کچھ نہ کچھ ازالہ ہو۔ جو کچھ ہوا اس کے برعکس ہے۔ گلگت کی آبادیوں میں مسلکی بنیاد پر اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے۔ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کا جو نسخہ اپنے ہی ملک میں آزمایا جاتا ہے یہ استعماری طاقتوں کا نوآبادیوں کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ وہ سیاسی درانداز اور حملہ آور تھے جنہیں بہت دور سے آکر نوآبادیوں یا غلام علاقوں میں حکومت کرنا تھی اور اس کا آسان نسخہ مقامی آبادی کو تقسیم کرکے ان کی اجتماعی طاقت کو غیر موثر بنانا تھا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انگریز کے جانے کے بعد بیوروکریسی نے یہ نسخہ اپنے ہی لوگوں پر استعمال کرنا شروع کیا۔ جس کا نتیجہ معاشرے میں مستقل تقسیم اور عدم استحکام کی صورت میں ظاہر ہے۔ گلگت بلتستان کی کہانی بھی اسی اصول کے گرد گھومتی ہے۔ مخالف کا ایسا نرم پیٹ جب کسی بیرونی حریف کو نظر آئے گا لامحالہ وار کے لیے اسی مقام کو چنے گا۔ آج کل گلگت بلتستان میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ چین کو بھی اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ سی پیک منصوبے کی شہ رگ ہی زمانے کے نشانے پر ہے اس لیے وہ سی پیک کے متبادل راستوں پر سوچ رہا ہے اور اس کے لیے افغانستان سے ایک نئی راہداری پر کام کرنے کی اطلاعات ہیں۔ چین نے سی پیک کا متبادل ڈھونڈ لیا تو اس کی دلچسپی یہاں کم ہوجائے گی اور یہ پاکستان کلی طور پر مغربی ملکوں کے رحم وکرم پر رہ جائے گا۔ پاکستان کے لیے اُبل پڑنے والے ان عذابوں نے اسے ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہنچا دیا ہے۔ جب یہ ملک بڑی طاقتوں کی غیر ضروری جنگوں کا اکھاڑہ بن کر زخم زخم ہو کر رہ گیا تھا۔ بین الاقوامی ساکھ بھی برباد تھی اور امن واستحکام نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ سیاحت اور صنعت تیزی سے زوال پزیر تھی۔ یوں لگتا تھا کہ پاکستان کا کوئی والی وارث ہی نہیں۔