پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

593

بچپن کی یادیں ہر ایک کا سنہری سرمایہ ہوتی ہیں۔ باغ میں سیر، جھولوں کی اُڑان، ریل گاڑی کی کھٹ کھٹ اور اس کی کھڑکی سے بھاگتے ہوئے گھر اور درخت، اسکول کا پہلا دن، کلاس میں دوسرے بچوں سے دوستی اور لڑائی، ٹھیلے سے مزیدار چاٹ اور گولا گنڈا کھانا، رنگ برنگے چوزے، ہرے ہرے توتے، گڑیوں سے کھیلنا، ان کے گھر بنانا۔ یہ سب بچپن کے ساتھ ایسا جڑا ہوتا ہے کہ بڑی عمر میں بھی اس کی سہانی یادیں ایک قیمتی سرمایہ کی طرح دل و دماغ میں محفوظ ہوتی ہیں۔ کیونکہ جب چھوٹے ہوتے ہیں تو بس اپنی ہی موج مستی کی دنیا میں مگن ہوتے ہیں، نہ کچھ فکر نہ پریشانی نہ کوئی غم نہ دکھ نہ روک ٹوک اپنی بادشاہی اپنی شہنشاہی کبھی ڈانٹ پڑی یا کھلونا ٹوٹا تو بھی زیادہ دکھ نہیں ہوتا، کچھ ہی دیر میں سب بھول بھال کر کھیل میں مگن۔ لیکن بچپن کی یہ خوبصورت یادیں ہر ایک کی زندگی کا حصہ نہیں ہوتیں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے اور کھیلنے کودنے کی عمر میں محنت اور مشقت میں لگ جاتے ہیں، غربت بھوک افلاس والدین کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو محنت کے کاموں میں ڈال دیں تا کہ گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو، والدین جانتے ہیں کہ پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے لیکن وہ کیا کریں؟ لہٰذا یہ ٹھیک ہے کہ بچوں سے کام کرانے کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ گھریلو حالات اور معاشی مشکلات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بچوں کو کام پر لگانا شاید والدین کی مجبوری ہوتی ہے لیکن ایسی کیا مجبوری کے کسی درمیان کے ایجنٹ کے ذریعے اپنی بیٹی کو دوسرے شہر مزدوری کے لیے بھیج دیں پھر پلٹ کر معلومات بھی نہ کریں کہ بچی کے ساتھ وہاں کیا سلوک ہورہا ہے۔ کیسی بھی غربت میں اپنے جگر گوشوں کو یوں غلامی میں دینے کے لیے آمادہ ہونا آسان ہے؟۔
دوسری طرف یہ کیسے لوگ ہیں انسان ہیں کہ جنگل سے آئے ہیں کہ انہیں معصوم بچوں پر ظلم توڑتے رحم نہیں آتا۔ یہ کیسا جج ہوگا کہ جو اپنے گھر میں معصوم بچی کو انصاف نہیں دے سکا، اس پر ظلم ہوتا رہا اور وہ آنکھیں بند کیے رہا۔ ایک دو دن نہیں مہینوں، کیا بچی کے رونے بلکنے کی آواز اُسے نہیں آتی ہوگی۔ وہ کیسے نرم اور آرام دہ بستر پر سویا رہا۔ جج کے بعد پیر اسد شاہ معاملہ سامنے آیا۔ معصوم فاطمہ کی دلدوز ویڈیو نے طوفان اٹھا دیا۔ پیر کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن سزا ملے گی؟ یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ جج کی بیوی بھی عدالت سے باسہولت ضمانت حاصل کرلیتی ہے۔ بعد میں گرفتار ہوتی ہے تو ’’ہاتھ ہولا رکھنا جج کی بیوی ہے‘‘۔ کی ہدایت جاری کی جاتی ہے۔ اسی دوران آٹھ سالہ بچی جو گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی۔ اس پر تشدد کا معاملہ رپورٹ ہوا۔ بچی کے والد کا کہنا ہے کہ مالکان میاں بیوی نے مل کر اس کی بچی پر تشدد کیا، کہنی کی ہڈی ٹوٹ گئی، معاملہ یہ ہے کہ ملازم بچوں پر تشدد کے واقعات تسلسل سے خبروں میں آئے ہیں، زیادہ تر طاقتور اور دولت مند گھرانے ہوتے ہیں۔ فیصل آباد کی دس سالہ بچی طیبہ کا مقدمہ بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا تھا۔ اس میں بھی ایک جج اور اس کی اہلیہ ملوث تھی، جج کو کرسی سے اتار دیا گیا تھا اور اہلیہ کو تین سال کی قید کی سزا دی گئی تھی۔ یہ کیس عدالت عظمیٰ تک گیا تھا جس نے اہلیہ کی سزا ایک سال کردی تھی۔ اس دوران سابقہ جج اور اس کی اہلیہ کے طیبہ کے خاندان والوں سے معاملات طے پاگئے۔ اب رضوانہ اور فاطمہ کے سلسلے میں بھی امکان ہے کہ معاملات اسی طرح دبا دیے جائیں گے۔ کیونکہ اس طرح کے واقعات میں مالکان کی طرف سے ملازموں پر بدتمیزی اور چوری کے الزامات لگائے جاتے ہیں، گرفتاری ہوتی ہے لیکن بعد میں زیادہ تر کیسز میں فریقین کے درمیان پیسوں کے لین دین کے بعد صلح ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے پر غور کریں تو پہلی وجہ معاشرتی فرق ہے، جو غرور اور تکبر کو جنم دیتا ہے۔ ایک طبقہ دولت میں کھیلتا اور دوسرا غربت اور بے بسی کے احساسات کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ دوسری وجہ ریاست کے کارندے ہیں خود جب ظلم اور بے انصافی کی وجہ بن جائیں تو خواہ قوانین کیسے ہی بنادیے جائیں ان کا نفاذ کون اور کیسے کرے گا۔ معاشرتی مسائل معاشرے کی اجتماعی کوششوں ہی سے حل ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے ریاست کو اپنے اداروں میں موجود ایسے ناسوروں کو ختم کرنا ہوگا۔ پھر تجارت، ملازمت اور تربیت کے مواقعے پیدا کرنے ہوں گے۔ جب الخدمت عوام کے وسائل سے خدمت تعلیم اور روزگار کے لیے اس طرح مثالی کام کرسکتی ہے تو حکومت جس کے پاس ادارے، سرمایہ اور افرادی قوت موجود ہے تو وہ خلوص نیت کے ساتھ کرے تو عوام کے لیے کیا نہیں کرسکتی، لیکن مسئلہ یہاں ہی اٹکتا ہے کہ خلوص نیت اپنے لیے تو خوب موجود ہے عوام کے لیے کہاں سے آئے؟۔