’’میں ساری قوم کو کہتا ہوں کہ آج آپ میرے ساتھ نہ کھڑے ہوئے ، نہ آج آپ میرے ساتھ نکلے ، تو عمران خان کوتو کوئی فرق نہیں پڑلے گا، لیکن آپ کا مستقبل بھیڑ بکریوں والا ہونے والا ہے۔جانوروں والا ہونے والا ہے۔دو معاشرے ہیں ، انسانی و جانوروں کامعاشرہ۔جانوروں کا معاشرہ ظلم کا مقابلہ نہیں کرتا۔بھیڑ بکریاں ظالم کے سامنے نہیں کھڑی ہوتی۔‘‘اَب اندازہ کریں کہ 25 دن سے گرفتارشخص کی ایسی تقاریر کے کلپس کی بھرمار بلکہ بمبارٹمنٹ ہو،اِن وڈیوز میں خاص قسم کی میوزک لگی ہو۔پھربدترین مہنگائی چل رہی ہو۔ بجلی کےبل ملک بھر میں نئی سرحدیں بنارہے ہوں، پیٹرول 300 پر ہو، ڈالر 320کراس کرلے، تو عمران خان کے کلپس کو دھکا لگنا سوشل میڈیا پرفطری رد عمل کہلائے گا۔یہی نہیں ،اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے عمران خان کی سزا معطلی و رہائی وہ بھی جسٹس عامر فاروق کے ہاتھوں ، جن کے خلاف تحریک انصاف خوب نفرت انگیز مہم چلاتی رہی ۔سرخروہواکپتان ہمارا، اٹک جیل پہنچو، تیرامنتظرہےپاکستان، کنگ از بیک، عمران خان ،بشریٰ بی بی سمیت کئی ہیش ٹیگ ٹرینڈنگ لسٹ پر رہے۔تاہم دوسری جانب سارے قومی چینلز پر ،سوشل میڈیا پر مہنگائی ایشو پرجماعت اسلامی کی ہڑتال واحتجاج ہی نظر آئی۔ سراج الحق نے بجلی قیمتوں کے ظالمانہ اضافے پر ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا، انجینئر حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد، محمدحسین محنتی سمیت ہر طرف جماعت اسلامی کے احتجاج کی دھوم نظر آیا۔یہی نہیں، ایم کیو ایم بھی کچھ لب ہلا بیٹھی ۔ بجلی کی قیمتوں کا معاملہ بہت زیادہ سنگینی اختیار کر گیا۔نگراں وزیر اعظم نے اجلاس بلایا مگر صاف جواب ملاکہ ابھی مزید بڑھیں گے معاہدہ آئی ایم ایف کا ہے۔نگراں حکومت ، جماعت اسلامی جیسی اپوزیشن کیسے برداشت کر سکتی ہے،کیونکہ تحریک انصاف کے خلاف آپریشن بدستور جاری ہے ۔باقی ساری جماعتوں کی مشاورت و منظوری و اعمال سے تو نگراں حکومت بنی ہے لہٰذا وہ تو کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہیں۔
ایک جانب معاملہ آئی ایم ایف شرائط ہیں تو دوسری طرف مفت بجلی و سرکاری عیاشیوں کا ہے، جو ازخود بہت بڑا وزن ہے۔سلیم صافی نے حل کے لیے اپنی ٹوئیٹ میں صاف اشارہ کیا کہ ، ’’تمام سرکاری دفاتر میں ائرکنڈیشن کےاستعمال پرپابندی لگائی جائے۔شاپنگ مال اوردکانیں مغرب میں بند ہوں۔ تمام وزرا،سرکاری افسران،ججز،جنرلز اور دیگر کےلئےفری یونٹس کی سہولت ختم کی جائے۔‘‘
اب دیکھتے ہیں کہ ستمبر کس کے لیے ’ستمگر ‘ثابت ہوتا ہے۔الطاف حسین نے بھی صورتحال دیکھ کرلندن سے ٹوئیٹ کی کہ ، ’’پی ڈی ایم کے سابقہ حکمرانوں خصوصاً میاں شہبازشریف ، مولانافضل الرحمن، آصف زرداری اوربلاول زرداری !آپ سابقہ حکمرانوں نے IMF سے قرضہ لیکر قوم کے سامنے بڑے فخر سےخوشی میں خوب بغلیں بجاکر پوری قوم پر مہنگائی خصوصاً بجلی، گیس، تیل کے نرخوں میں ناقابل بیان اضافے کاجوآئی ایم ایف بم مارا ہے۔ اِس کی وجہ سے آج 98 فیصد غریب ومتوسط طبقہ کے عوام سسک سسک کر مررہے ہیں۔‘‘ یہی نہیں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف بھی ٹوئیٹ میں عجیب مشورے دیتے نظرآئے۔ جس پر مذاق تو بننا ہی تھا۔ان سے بہتر تو گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی وڈیو رہی جس میں وہ اپنے نائی کی تشہیر کرتے پائے گئے ۔ جب نائی کا سوشل میڈیا ریکارڈ چیک کیا تو ایک درجے میں ہمیں تو وہ گورنر سندھ سے بھی زیادہ مشہور نظر آیا۔
سرمد سلطان کھوسٹ ، کوپاکستان میں لبرلز کا سرخیل کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ لبرلز کا مسئلہ پاکستان تو ہے اس لیے کہ پاکستان کو اسلام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیںکہ یہ سب ایک دھوکہ ہے ،نام ہے، جو کہ سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے لیا جاتا ہے، اِس کو بھرپور استعمال کیا گیامگر ہر گزرتے دن نےاس میں شدید مسائل پیدا کیےہیں۔
زندگی تماشہ ، نامی فلم ،سرمد سلطان نے خود لکھی بھی، ڈائریکٹ بھی کی، ایڈٹ بھی کی،بہن اور ابا نے پیسہ لگایا، پیر سید مہر علی شاہ ؒکا مشہور کلام استعمال کیا تو اُن کو بھی خصوصی سلام پیش کیا۔یہ فلم 2019 میں تیار ہوئی۔ نمائش کے لیے جنوری 2020میں اس کو سینماؤں میں لگنا تھا۔ سرمد کی بدقسمتی کہ فلم کے اندر کے کسی آدمی نے یا سنسر بورڈ کے کسی فرد نے وقت سے پہلے کہانی کے عناصر ’لیک ‘کیے ۔کسی نے علامہ خادم رضوی ؒ کو بتا دیا کہ اس فلم میں ایک نعت خواں کا مذاق بنایا گیاہے، یہ پہلو کا فی تھا۔ علامہ صاحب تو ٹی وی، فلم، ڈراموں ، ٹاک شوزوالے بندے تھے ہی نہیں ۔ اُن کو باقی کسی چیز سے کوئی سروکار نہیںتھا ۔علامہ صاحب نے اعلان کر دیا کہ اب اس فلم کو پاکستان میں عوامی نمائش پر نہیں لگنے دیںگے ۔ علامہ صاحب فرماتے ہیں ’’ اب پاکستان میں تم یہ فلم چلانا چاہتےہو، یہ نہیں ہو سکتا، یہ فلم ، یہ تماشے تم اپنے گھر جا کر چلاؤ۔یہ ملک پاکستان رسول اللہ کے دین کے واسطے بنا ، شعائر اسلام کی عزت کے لیے بنا ۔‘‘۔علامہ صاحب تو 2020نومبر میں دُنیا سے رخصت ہوگئے ۔اس فلم نے بیرون ملک نمائشوں سے 4 ایوارڈ بھی لے لیے ، مگر پاکستان میں عمران ، شہباز حکومت سمیت کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اُس فلم کو نمائش کی اجازت دے سکے۔اِس دوران سرمد کھوسٹ کی اس سے بھی زیادہ متنازع فلم جوائے لینڈ آیا ، اُس کو تحریک لبیک سمیت کئی لوگوں نے کچھ مشکل میں ضرور ڈالا مگر نمائش نہ رُکوا سکے۔بہرحال 2023 میں تینوں حکومتوں سے مایوسی کے بعد سرمد کھوسٹ نے فلم کو اب اس ماہ یو ٹیوب اور ویمیوپر جاری کردیا، ساتھ ہی یو ٹیوب پر اپنا اکاؤنٹ نمبربھی دیا کہ وہ شوقین لوگ جو فلم کو سمجھتے ہیں وہ مفت فلم دیکھ لیں اور ان کو پسند آئےتو مالی تعاون کر سکیں۔ویمیو پر ڈائریکٹر کٹ ورژن ڈالا ہے مطلب وہ جو سنسر بورڈ سے پہلے کا ورژن ہے، مگر وہاں وڈیو آن ڈیمانڈ ہے اس لیے وہاں فلم کا کرایہ 11ڈالر مطلب 3520روپے ہیں فلم دیکھنے کی مد میں۔ یہ دیکھ کر میں چونکا کہ یو ٹیوب توخود فلم کے ویوزپر ڈھیر سارے ڈالر دیتا ہے، تو یہ پیسوں کی الگ سے اپیل مجھے سمجھ نہیں آئی۔
اس معاملے کی مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس فلم پر علامہ صاحب کی کوئی ایسی ’آہ‘ لگی کہ مت پوچھیں۔ سرمد نے رسیدیں دِکھا دِکھا کر الگ ویڈیوز میں بتایا کہ اُس نے فلم میں استعمال شدہ 1974 کی پاکستانی پنجابی فلم ’نوکر ووہٹی دا‘کے ایک گیت کے استعمال کے لیے خصوصی اجازت لی اور اُس کی قیمت بھی دی ۔مگر جیسے ہی سرمد نے فلم اپلوڈ کی تو پہلے سے جس کسی نے اس فلم کو اپنے رائٹس کے ساتھ اپلوڈ کیاتھا،اُس نے اعتراض دائر کردیا۔ سرمد کی کمپنی نے خوب درخواستیں کی ، کہ جناب آپ اپنی حقیقت بتائیں ، ہم نے تو 1974 میں اصل فلم بنانے والوں کو پیسے دے کر اختیار خریدا ہے ، آپ کون ہو؟ مگر یہ بات یوٹیو ب کو سمجھانا آسان نہیں تھا، اُس کے لیے تو کانٹینٹ کا مالک وہی ہے جس نے پہلے اُس کو اپلوڈکیاتھا۔ میں نے سرسری جائزہ لیا تو وہ فلم و گیت محض ۷ سال پہلے ہی اپلوڈ ہوئے تھے ، مگر وہ چینل یو ٹیوب کی طرف سے ویریفا ئڈ ہوچکے تھے،اُس گیت پر ہی کوئی 86 لاکھ ویوز آچکے تھے ۔اس اعتراض کی وجہ سے سرمد اب یو ٹیوب سے اپنی فلم مانیٹائز نہیں کر اسکتا، یوں اُس کو الگ سے اپیل کرنی پڑی۔
بہرحال وہ تو اپنی کوششوں میں لگا رہے گا ،اُس کا تو مشن ہی ایسی تمام رکاوٹوں کو ختم کرنا ہےجنہیں وہ پورا ’لبرل‘ طبقہ انگیز کر رہا ہے۔
چلیں اَب دیکھتے ہیں کہ فلم میں ایساہے کیا؟فلم کو میں نے ایک حد تک دیکھااور سُنا ہے مگر میں کسی کو بھی یہ ترغیب یا مشورہ نہیں دوںگا کہ میری تحریر پڑھ کر خود فلم دیکھنے بیٹھ جائے۔میں تو خطرے سے بچانے کے لیے مطلع کر رہا ہوں، میری تقلید کسی طور نہ کی جائے۔فلم میں بنیادی طور پر ایک ہی گیت ڈالا گیا جو اُسی پنجابی فلم کا تھا، باقی دو کے قریب نعتیں ہی پڑھی گئی ہیں۔مجھے فلم کے ڈائیلاگ سے بھی مطلب تھا، کہانی سے بھی اور اسکرین پلے سے بھی۔ اس میں شک نہیں کہ فلم کے تکنیکی اُمور کو سرمد نےاپنی ٹیم کے ساتھ اور خود بھی پوری لگن سے انجام دیا۔کیمراورک سے لیکر اسکرین پلے میں تکنیکی مہارت ویسی ہی تھی جیسا ہونی چاہیے تھی۔اس کے بعد تھے کردار ، بنیادی طورپر 5-6کردار ہی تھے، اسکے علاوہ 10-11تھے تو ایک ایک ، دو دو سین کے کردار ۔اُس کی فلموں کے موضوعات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سرمداُن لوگوں میں سے ہے جو فلم کی پوری مابعد الطبعیات کو سمجھتاہے۔مجھے حیرت بس اس بات پر تھی ، کہ سرمد نے فلم کے مرکزی کردار ، عارف حسن کو جب نعت اچھی پڑھنی نہیں آتی تھی تو کیوں اُس کواِس کردار میں لیا؟عارف نے ڈانس کرلیا، اداکاری بھی اچھی کر لی، مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کی آواز میںنعت خواں جیسی کوئی بات تھی۔
بہرحال فلم کی کہانی بنیادی طور پر توسوشل میڈیا سے جڑی ہوئی تھی، اس موضوع اپنی نہاد میں بہت اہم، ضروری اور زیادہ سخت انداز سے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے بھی سوشل میڈیا موضوعات پر خاصی سیریل، فلمیں بنانا شروع کر دی ہیں۔فلم کی اصل کہانی یا ایک بنیادی پیغام تو اسمارٹ فون کی تباہ کاری پر مبنی تھا، ہر چیز کی وڈیو بنانا ، اسکو لائکس اور منفرد جان کر شیئر کر دینا، یہ سوچے بغیر کہ اس کے نتائج کسی کی زندگی پر کیا ہو سکتے ہیں۔سرمد نے فلم میں لاہور کے محلوں کی معاشرت کو جہاں بہت خوبصورتی سے دکھایا ہے ، وہاں اس فلم میں زبردستی ٹرانس جینڈر ، خواجہ سراؤں کو بھی ٹھونسا ہے، جن کا کہانی سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر ۔۔۔۔فلم کامرکزی کردار عارف ایک اسٹیٹ ایجنٹ کا کردار ہے۔ اپنے شوق کی وجہ سے سالہا سال سے نعت خواں کی شہر ت بھی رکھتا ہے۔ اُس کی ایک بیمار بیوی ہے ، ایک شادی شدہ بیٹی ہے جو ایک مقامی ٹی وی چینل میںکام کرتی ہے ۔ شادیوں میں دعائیہ سہرا پڑھنے کا عمل پنجاب میں ایک روایتی عمل ہے۔ایسے ہی اپنے قریبی دوست کی شادی میں عارف حسن ، سہرا پڑھتا ہے ۔اپنے محلےکے دوستوں کے ساتھ شادی کے ہی گھر میں چائے میں گپ شپ کے دوران ، ’’خاص ایجنڈے ‘‘کے تحت ڈانس پر بات نکل آتی ہے تو عارف کا ایک پرانا دوست سب کو بتاتا ہے کہ بچپن میں عارف کو ناچنے کا بڑا شوق تھا۔عارف بچپن کے واقعے اور والد کی سخت پٹائی کا ذکر بھی کرتا ہے ۔مگر اس کادوست عارف کو بیٹے کی شادی کی خوشی میں رقص کی فرمائش کرتا ہے۔ یہاں عارف سادے سے خوشی والے رقص کے بجائے اپنی پسند کا مخصوص گانا لگواتا ہے ، جو متعلقہ فلم میں ایک طوائف پر فلمایا گیا تھا، اس لیے اُس رقص کی خاص ترتیب تھی۔ عارف رقص کرتا ہے دوست خو ش ہوتے ہیں، بات ختم۔ مگر وہیں اس رقص کی ایک وڈیو بن جاتی ہے اور سوشل میڈیا اپلوڈ ہو جاتی ہے ۔ پھر کیا تھا ، راتوں رات وہ وائرل ہوجاتی ہے۔ یوں عارف کی زندگی عملاً تماشہ بن جاتی ہے ۔اس کے بعد عارف کو جان چھڑانے کے لیے ایک اور معافی و توبہ کی وڈیو کا مشورہ دیا جاتا ہے ، وہ اس کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے ۔ اب یہاںڈائریکٹر و کہانی نویس کا کمال تھا جنہیں توبہ نہیں کرانی تھی ۔ توبہ کی تصدیق کے لیےمقامی مولوی کو بلایا جاتا ہے ،مگر اس پورے سین میں ڈائریکٹر کا فتن صاف محسوس ہوگا کہ اُس نے پورے لبرل ایجنڈے کو داخل کیا۔ جس میں علمائے کرام سے نفرت، مسجد فنڈ خردبرد، بچوں سے بدکاری ، گالم گلوچ جیسے ایشوز چھیڑے گئے اور فلسطین و امریکہ کیس کو ‘”زبردستی“ ٹھونسا گیا۔یہی نہیں بعد میں ربیع الاول کی محفل میلاد میں دوبارہ دونوں کے ٹاکرے میں” گستاخی کے نعرے“ کی مثال دے کر یہ بھی سمجھایا گیا کہ علما اپنے مفاد کے تحت لوگوں کو گستاخ کس طرح مشہور کرتے ہیں( جس کا کوئی تاریخی ، واقعاتی ثبوت موجود نہیں)گو کہ اس منظر میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ عارف سکتہ کی حالت میں (خاموش) ہوجاتا ہے ۔بہرحال یہ ٹھیک ہے کہ عارف کو اپنے عمل پر ندامت صاف دکھائی گئی (مگر ظاہر ہے کہ عوام کےپاس تو وڈیو ہے وہ کیسے سمجھ سکتے ہیں)۔ عارف کو شدید غم لگ جاتا ہے اُس کی بیمار بیوی اُس کو پکارتی مر جاتی ہے ، بیٹی ناراض ہو جاتی ہے اور آخری منظر میں وہ اکیلا بیٹھا اپنی زندگی کو تماشہ کا عنوان دیتا نظر آتاہے۔( شکر ہے کہ خودکشی نہیں کروائی)
یوں ایک بات جو ہمیں یا اس فلم کو دیکھنے والو کو سمجھنی ہوگی کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ مسلمان جس نے دین پرلگایا جس کی نسبت دین سے جڑے ہیں۔ وہ اُس کے کردار کو انتہائی صاف چاہے گا۔وہ کبھی بھی ایسے شخص میں کوئی برائی نہیں دیکھنا چاہے گا جس سے وہ دینی بنیاد پر وابستہ ہو۔ خود تو لینڈ کروزر میں بیٹھے گا مگر اُس کےبیٹھنے پر سوال اٹھائے گا ، اس لیے نہیں کہ وہ اُس کو گاڑی میں نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ دین کے علما و مشائخ میں دنیا پرستی، رغبت، دنیاوی کشش نہیں ہوتی۔یہاں سرمد نے نعت خواں سے لیکر عالم دین تک سب کو ایسے لپیٹاہے کہ بظاہر آپ کو نہیں محسوس ہوگا مگر ڈائیلاگ کے درمیان باریک کام ہوجائے گا ۔فلم دیکھنے والے ہر شخص کی اول تا آخر ہمدردی نعت خواں کے ساتھ بھلے رہے مگر وہ لازمی علما کے لیے دل میں لکیر لےکر جائیگا کہ اُس (مطلب فلم والے جعلی مولوی )کو ایسا نہیں کرنا تھا۔یہ لبرلز کا اہم ترین ایجنڈا ہے،عوام کو دین کے لیے علما سے کاٹنا ۔ اصل مسئلہ سوشل میڈیا کا بدترین استعمال تھا۔ یہ سوشل میڈیا ہر گزرتے دن سرکا درد بنتا جا رہاہے۔
کیا متبادل ہو سکتا تھا؟ یہ میرا کام نہیں مگر یہ سیدھی بات ہے کہ اگر سوشل میڈیا تباہ کاری پر فلم بنانی تھی تو دینی شخصیت کو موضوع بنائے بغیر بھی فلم بن سکتی تھی، دینی طبقات میں اگر کوئی خرابی محسوس ہوتی ہے تو وہ اُن کے اندر سے ہی دور کرائی جائے گی ، یہ نہیں ہوسکتا کہ فلموں میںموضوع بنا کر عوام کو اس طرح متنفر کریں۔مگربات یہ ہے کہ سرمد کھوسٹ کے پاس آرٹ اور آزادی اظہار کے نام پر ان موضوعات کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔
سرمد کو سمجھنا ہوگا کہ اُس کی اپنی کہانی کے مطابق عوام جس وجہ سے عارف کو قبول نہیں کر رہے تھے وہ درحقیقت حفظ مراتب ہے ۔ دین اسلام روز اول سے مراتب وجود کی تہذیب کھڑی کرتا ہے ۔ دین کی مقدسات ہیں، شعائر ہیں، انکا ادب ہے ، احترام ہے ، ان کا مقام ہے،یہ ہر کسی کو نصیب نہیں ،اس لیے یہ موضوعات فلم کے نہیں ہو سکتے ۔فلم کا میڈیم اپنی نہاد میں اول تا آخر لبرل ایجنڈا ہے، کردار جھوٹے ہوتے ہیں، اداکاری کا عمل خود جھوٹ ، سب کچھ دکھاوا، چاہے مقصد کوئی بھی ہو، کیمرے کی آنکھ صرف ظاہر کو ہی دیکھتی دکھاتی اور جھوٹا تاثر پیدا کر دیتی ہے۔سرمد صاحب،نوٹ کریں ۔ آپ نے خود فلم میں دکھایا کہ ، عارف کی ناچتی وڈیو کو لوگوں نے ظاہری بنیاد پر لیا ، کسی نے نہیں جانا یا سوچا یا سوچنا گوارا کیا کہ عارف حقیقت میں تو ایسا نہیں ہے۔ایسا اس لیے کہ رقص کی وڈیو نے اپنا جھوٹا اثر قائم کردیا تھا۔بات سمجھے کچھ؟