اب مسئلے کا حل دھرنا رہ گیا ہے، نہ قانونی حل ہے، نہ ہی قانون پر عمل درآمد کرانے والے، کیوں کہ وہ بھی نااہل ثابت ہورہے ہیں۔ کشمور ان دنوں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا مرکز بنا ہوا ہے، اغوائے انسانی اب کاروبار ہے جس کو اندرون سندھ میں کم خرچ بالانشیں سمجھا جاتا ہے جو غلط بھی نہیں۔ کچے کے علاقے اب ڈاکوئوں کے پکے ٹھکانے ہیں جو سندھ حکومت کے تین ارب روپے کے خرچ سے بھی ان ڈاکوئوں کا بال بیکا نہ کرسکے اور اب رقم ٹھکانے لگادی گئی۔ نگراں وزیر داخلہ نے ڈاکوئوں کے ٹھکانوں کے خلاف رینجرز آپریشن کا عندیہ دیا تو پھر یہ ڈراوا کچھ کام آگیا، ساتھ ہی کشمور میں قومی شاہراہ پر دھرنے نے سندھ پنجاب اور بلوچستان کا زمینی رابطہ منقطع کردیا، تو پھر امجد شیخ ایس ایس پی کی گولی چلانے اور دھرنا ختم کرانے کی وارننگ بھی انتظامیہ کے کام نہ آسکی اور پھر بالآخر جگدیش کمار اور بچہ جئے دیو کمار آزاد ہو کر گھر آگئے۔ ان کی رہائی بھی مبینہ طور پر بااثر سرداروں اور بھوتاروں کے تعاون سے ہوئی اور مبینہ طور پر ان کے بنگلوں سے یہ حوالہ ورثا کیے گئے اور انہوں نے ہی سودا بازی کرائی۔ مفت میں تو رہائی اغوا انسانی کی تاریخ میں تو کجا چوری کے جانور بھی بھنگ کی رقم پتھاری دار لے کر لوٹاتے ہیں جو سودا بازی کراتے ہیں اور پھر محنتانہ میں خاصی رقم بٹورتے ہیں۔ اب بھی ایک درجن مغوی ڈاکوئوں کے پاس یرغمال ہیں، کچھ شادی کے شوقین ان کے ہتے چڑھے تو کچھ سر راہ اغوا کرلیے گئے۔ جب ڈاکوئوں سے تین افراد کی رہائی کی خبر آئی تو ساتھ ہی میڈیا پر خبر چلی کہ نواب شاہ میں ڈاکٹر طارق سعود جتوئی موہنی بازار سے زوہیب سینٹر جاتے ہوئے پراسرار طور پر گم ہوگئے اور اُن کا فون بند جارہا ہے۔ اغوا کا شبہ ہے۔
انتخاب کا مرحلہ قریب آتا ہے تو حیرت انگیز قابل توجہ بات ہے کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں، اغوا کی ان وارداتوں کا حل یہ ہے کہ ڈاکوئوں کے ساتھ ان کے سرپرستوں کا بھی خاتمہ کیا جائے جو ڈاکوئوں کو اپنی قوت قرار دیتے ہیں، یہ ڈھکے چھپے ہرگز نہیں ہیں سیاست کی اوٹ میں بچے ہوئے ہیں۔ ہر مرتبہ آہنی ہاتھ ان کے خلاف حرکت میں آنے کا تذکرہ ہوتا ہے پھر یہ آہنی ہاتھ موم کی ناک بن جاتا ہے۔ سیاسی مصلحت آڑے آتی ہے جمہوریت کی ضرورت رکاوٹ بنتی ہے اور پھر پرنالہ وہیں گرتا ہے۔ اب جی ایم سید کے پوتے اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے کرتا دھرتا جو کشمور دھرنے میں شریک تھے انہوں نے ایک اہم بیان دیا ہے کہ 6 لاکھ سے زائد فوجیوں میں سے ایک لاکھ فوجی کچے کے علاقے میں سچائی کے ساتھ ڈیوٹی دیں تو سارے ڈاکو ختم ہوجائیں گے۔ انہوں نے سچائی سے ڈیوٹی کو مشروط کیا ہے۔ اس میں کیا راز پنہاں ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو کے ملازمین کے اغوا کی واردات میں پنہاں ہے اور وہ راز سندھ اسمبلی کے ریکارڈ میں سید زین شاہ کے والد سید امداد محمد شاہ رکن اسمبلی سندھ نے ایک انکوائری کراکر پوشیدہ نہ رہنے دیا۔ سچائی اگر سیاسی آلودگی سے پاک ہو تو پھر مسئلہ کوئی نہیں مگر ایک سیاست دان کا بیان بھی زبان زد عام و خاص ہوا تھا کہ ڈاکو سانپ نہیں جو مٹی کھا کر گزارہ کریں تاوان دو اور بندہ لو!
سو مغوی ڈاکٹر منیر شیخ جنگل کے قانون پاسداری کرتے ہوئے مبینہ طور پر 70 لاکھ روپے جرم ناکردہ کا تاوان دے کر ڈاکوئوں کے چنگل سے نکل کر گھر پہنچے۔ رہائی بروز منگل کو ہوئی تو جنگل میں منگل کا جشن ہوا۔ سندھ میں انسانی اغوا کی تاریخ راجا داہر کی حکمرانی سے ملتی ہے۔ جس کے دور حکمرانی میں مسلمانوں کے بحری قافلے کو ڈاکوئوں نے لوٹا اور عورتوں بچوں کو مغوی بنالیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس واردات کے موقع پر ایک عورت نے کہا یا حجاج اغتنی، یعنی حجاج ہماری مدد کو آ۔ مخبر نے یہ بات جب حجاج بن یوسف کے دربار میں بتائی تو یہ سنتے ہی کہ حجاج کھڑا ہوا اور لشکر کی تیاری کا حکم دیا اور بلند آہنگ کہا کہ ہم آرہے ہیں اور پھر نوجوان محمد بن قاسم کی قیادت میں ایک لشکر سندھ بھیجا۔ راجا داہر کو شکست فاش ہوئی وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ کچھ احباب تو یہ کہتے ہیں کہ جام صاحب میں اُس کی قبر ہے، یوں پھر مغوی کی مدد پر رب کی نصرت سے سندھ باب الاسلام کے تمغے سے سرفراز ہوگیا۔ اب بھی حجاج بن یوسف جیسے سخت گیر حکمران کی ضرورت ان کی سرکوبی کے لیے درکار ہے جو لشکر جرار بھیج کر ان کا قلع قمع کرکے سندھ کو گہوارہ امن بنائے۔ جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی جو کبر سنی کی عمر میں بھی سندھ میں محنت کررہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ آخری مغوی کی بازیابی تک احتجاجی دھرنے جاری رہیں گے۔ امن وامان کی بحالی شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ سراج الحق واحد قومی لیڈر ہیں جنہوں نے سندھ میں ڈاکو راج کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کی اور احتجاجی دھرنوں سے خطاب کیا۔ ایک عشرہ قبل ڈاکو عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہ اٹھاتے تھے، اغوا کرنا تو کجا۔ اب وہ راجا داہر کے دور کی طرح ہوس دولت میں چلے گئے ہیں اور انہوں نے اُسی طرح عورتوں اور بچوں کو مغوی بنانا اور مال بٹورنا شروع کردیا ہے تو تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرائے گی۔ رب کی نصرت آئے گی۔ اغثنی کی صدا بلند ہے تو پھر محمد بن قاسم کی صورت ان کی بیخ کنی کا سامان ہوگا۔ ان شاء اللہ یہ سعادت کس کا مقدر بنے گی دیکھنا یہ ہے مگر یہ ہو کر رہنا ہے۔ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، یہ رب کی سنت ہے یہ وقت اب دور نہیں ہے جب ظالموں کی گردنوں کا ناپ لیا جائے گا۔