موجودہ ماحول میں داخلی طور پر بحیثیت مسلمان اور پاکستانی قوم ہماری اپنی خامیاں اور کمزوریاں ہوں یا خارجی سازشوں کے جال میں گھرا پاکستان، ہمارے کھلے دشمن ہوں یا آستین میں چھپے زہریلے سانپ، قوم کے سامنے سب عیاں ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں دین و ملت کو درپیش مسئلے کی نشاندہی کے لیے قرآن کے بیان کردہ قرآنی منافقین کو مذہبی و دینی تشریحات کے ذریعے سمجھنا ہو یا مذہب سے دور سیکولر ذہن بحیثیت پاکستانی قوم یا ملت کے مفاد میں سمجھنا چاہتے ہوں تو ہر طبقہ فکر کے طالب علم کے لیے دونوں راستے ہی دلچسپی کے ساتھ مفید، گہری فکری تسکین کے ساتھ موثر حل فراہم کریں گے، کیونکہ موجودہ ماحول میں دین و ملت کے خلاف سازشی عناصر کی مذموم منصوبہ اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول کے آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے اس لیے لوگوں کے سروں پر آن پہنچی مصیبت کے ادراک کے لیے شعوری اور ہوش و حواس کی بات سمجھنا نہ صرف آسان ہے بلکہ اسے قبول کرنے کے لیے بھی موجودہ حالات سے زیادہ موزوں ترین وقت کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
گلگت بلتستان کے حالیہ شورش زدہ نازک ترین حالات میں جہاں توہین مقدسات کے ذریعے منصوبہ بندی سے حالات کا خراب کرنا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرکے ریاست کو للکارنا، غداران وطن کی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے ذریعے انہیں چند لاشیں مطلوب ہیں تاکہ متوقع انڈیا کے حملے کے وقت سے پہلے ریاست کو ایک فرقہ کا مخالف بنا کر پیش کیا جاسکے اور خاص فرقے پر ریاستی جبر کا بیانیہ بنایا جاسکے اور اسے جواز بنا کر بیرونی طاقتوں انڈیا یا امریکا کو نجات دہندہ کے طور پر خوش آمدید کہا جاسکے اور
اصل مقصد پاک چین راہداری اور ترقی کے بڑے منصوبے (سی پیک) کے راستے اور سپلائی لائین کو متاثر کیا جائے جو آج سے 57 سال پہلے سے اس اہم ترین خطہ میں اسلام دشمن مغضوب اعلانیہ (کھلے کافروں یہود ونصاریٰ) کے آلہ کار مغضوب خفیہ (منافقین چھپے اندرونی دشمن) سہولت کاروں میں سے ایک کے گلگت بلتستان جیسے اہم ترین جغرافیہ کے حامل خطہ میں لگائے گیے بیج سے تناور بننے والے درخت کے پھل تک کا سفر اور اس کی روح رواں عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کار فرما ہے جو روایتی طور غداری سے تعبیر ازلی اور نسلی طور پر سائنسی اہمیت کی حامل اور ہمیشہ کی طرح یہاں بھی ازلی اور نسلی طور پر مجوسی و سبائی ہی سہولت کار دکھائی دیتے ہیں جو 1971 کی طرز پر ایک اور سانحہ کے درپے ہیں۔
سید عمران علی