تَطَیُّر(حصہ اول)

662

طِیَرَۃَ، طَیَرَۃ، اِطَّار اور تَطَیُّر کے معنی ہیں: اچھی یا بری فال نکالنا، اہل ِ عرب پرندے اُڑا کر فال نکالا کرتے تھے کہ اگر دائیں جانب چلا گیا تو نیک فال اور بائیں جانب چلا تو بدشگون ہے۔ ہندو معاشرت کے اثرات کے تحت ہمارے ہاں نیک وبَد شُگون کی بہت سی روایات چلی آرہی ہیں۔ صَفرالمُظفر قمری سال کا دوسرا مہینہ ہے، ظہورِ اسلام سے پہلے اہل ِ عرب میں بھی اِس مہینے کے بارے میں بہت سی روایات موجود تھیں، بعض لوگ ماہِ صفر کی طرف بیماری یامالی نقصان یا مصیبتوں کے نزول کی بدشُگونی منسوب کرتے تھے، بعض لوگ اب بھی انہی باطل توہمات کے زیرِ اثر صفر میں شادی نہیں کرتے۔ رسول اللہ ؐ نے اِن تمام باتوں کی نفی فرمائی، اِس حوالے سے کُتبِ احادیث میں متعدد روایات ہیں، ہم اُن تمام روایات کو یک جا کرکے درج کررہے ہیں، آپ ؐ نے فرمایا: ’’بدشُگونی کی کوئی حقیقت نہیں، کوئی مرض اپنی ذات سے مُتعدی نہیں ہوتا، اُلّو کی نحوست کی کوئی حقیقت نہیں، ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت نہیں، ستاروں کے طلوع ہونے کا انسانوں کی تقدیر میں کوئی دخل نہیں اور بھوت پریت کی تاثیر کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘‘۔

قرآن مجید میں بد شگونی کے معنیٰ میں ’ ’نَحس، اِطَّار اور تَطَیُّر‘‘ کے کلمات آئے ہیں، جبکہ حدیث ِ مبارک میں ’’طِیَرَۃ‘‘ کا کلمہ آیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک ہم نے اُن پر تُند وتیز مسلسل چلنے والی آندھی منحوس دن میں بھیجی، جو اُن کو اٹھاکر اِس طرح مارتی تھی جیسے وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہیں‘‘، (القمر: 19-20) ’’سو ہم نے (اُن کے) منحوس دنوں میں اُن پر خو ف ناک آواز والی آندھی بھیجی تاکہ ہم اُنہیں دنیا کی زندگی میں ذلّت کے عذاب کا مزا چکھائیں اور آخرت کا عذاب سب سے زیادہ رُسواکُن ہے‘‘، (حم ٓ السجدہ: 16) ’’اور رہے عاد، تو اُن کو گرجتی ہوئی تیز آندھی سے ہلاک کردیاگیا، (اللہ نے) اِس آندھی کو اُن پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن تک مُسَلّط رکھا، پس تم دیکھتے کہ یہ لوگ زمین پر کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح گر گئے‘‘، (الحاقّہ: 6-7) ’’پس جب اُن پر خوشحالی آتی تو وہ کہتے: یہ ہماری وجہ سے ہے اور اگر اُن پر کوئی بدحالی آتی، تو وہ موسیٰ ؑ اور اُن کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے، سنو! اِن کافروں کی نحوست اللہ کے نزدیک ثابت ہے، لیکن اِن میں سے اکثر نہیں جانتے‘‘، (اعراف: 131) ’’کافروں نے (رسولوں سے) کہا: ہم تم سے براشگون لیتے ہیں اور اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کردیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں ضرور دردناک عذاب پہنچے گا، اُنہوں نے کہا: تمہاری بدشگونی تمہارے ساتھ ہے، کیا تم اس لیے برہم ہوتے ہوکہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے، بلکہ تم توحد سے تجاوز کرنے والے ہو‘‘، (یٰس: 18-19) ’’اور بے شک ہم نے ثمود کی طرف اُن کے ہم قبیلہ صالح کو یہ پیغام دے کربھیجا: اللہ کی عبادت کرو، تو وہ دوفریق بن کرجھگڑنے لگے، صالح نے کہا: اے میری قوم! تم بھلائی کی طلب سے پہلے برائی کی طلب میں کیوں جلدی کر رہے ہو، تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے، انہوں نے کہا: ہم آپ اور آپ کے ساتھیوں کو نحس سمجھتے ہیں، صالحؑ نے کہا: تمہاری نحوست اللہ کے پاس ہے، بلکہ تم لوگ فتنے میں مبتلا ہو‘‘۔ (النمل: 45-47)

نحوست یا بدشگونی کے لیے ابتدائی تین آیات میں ’’نَحس‘‘ کا کلمہ آیا ہے، اِن آیات میں قومِ عاد پر عذاب کے دنوں کو منحوس کہا گیا ہے، عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے: قومِ عاد پر عذاب بدھ کے دِن آیا تھا اور وہ اِس دن کو منحوس کہتے تھے، اس کی تفسیر میں علامہ محمود آلوسی لکھتے ہیں: ’’میں کہتا ہوں: تمام ایام برابر ہیں اور بدھ کا دن نحوست کے لیے خاص نہیں ہے، اُن پر عذاب اُن کی سرکشی اور بغاوت کی وجہ سے آیا نہ کہ بدھ کے دن کی وجہ سے، ہر گزرنے والی ساعت کسی شخص کے لیے اچھی اور مبارک ہوتی ہے اور وہی ساعت دوسرے شخص کے لیے بری اور منحوس ہوتی ہے اور ہر دن کسی شخص کے لیے خیر اور دوسرے شخص کے لیے شَر ہوتا ہے، ایک ہی دِن میںکہیں جنازہ اٹھتا ہے اور کہیں شادیانے بج رہے ہوتے ہیں، پس نحوست یا ناخوشگوار ہونے کا تعلق زمانے سے نہیں ہوتا، بلکہ افراد کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص پر کوئی عذاب یا کوئی مصیبت نازل ہونے کی وجہ سے بدھ کے دن کو منحوس مان لیا جائے تو ہردن بلکہ ہر ساعت میں کسی نہ کسی شخص پر کوئی نہ کوئی مصیبت اور بلا نازل ہوتی رہتی ہے، پھر اِس طرح تو تمام ساعتیں نحس قرار پائیں گی‘‘۔ (روح المعانی)

اگلی تین آیات میں بدشگونی کے لیے ’’تَطَیُّر‘‘ اور ’’طَآئِر‘‘ کے کلمات آئے ہیں، سورۃ الاعراف کی آیت میں بتایا گیا ہے: فرعونیوں نے سیدنا موسیٰؑ اور اُن کے ساتھیوں کی طرف نحوست کی نسبت کی، پس انہیں بتایا گیا: تمہاری نحوست، تمہاری بداعمالیوں کے سبب اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُقدر ہے۔ یٰس: 18-19 میں بتایا گیا: اہل ِ انطاکیہ کی طرف ہدایت دینے کے لیے جو رسول بھیجے گئے، انہوں نے ان کو جھٹلایا اور کہا: ’’ہم تم سے برا شگون لیتے ہیں‘‘، اسی طرح النمل: 45-47 میں قومِ ثمود نے سیدنا صالحؑ اور ان کے ساتھیوں کی طرف نحوست کی نسبت کی، الغرض یہ ماضی کے کفار کا وتیرہ تھا کہ وہ ہدایت قبول کرنے کے بجائے انبیائے کرام ؑ اور ان کے پیروکاروں کو نحس قرار دیتے تھے۔

حدیث پاک میں فرمایا: ’’ لَاطِیَرَۃَ‘‘ یعنی کسی خاص مقام، دِن یا وقت کے حوالے سے شریعت میں نحوست یا بدشگونی کا کوئی تصور نہیں ہے، بلکہ ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی چیز سے بدشُگونی لے کر اپنے مقصد سے لوٹ آیا، اُس نے شرک کیا‘‘۔ شرک کی صورت یہ ہے: کسی کا یہ عقیدہ ہوکہ اِس چیز یا واقعے کا ظہور اپنی ذات میں ناکامی کا سبب ہے اور اِس بنا پر وہ اپنا پروگرام ملتوی کردے، تو گویا اُس نے اعتقادی طور پر شرک کا ارتکاب کیا اور غیر اللہ کو مؤثر بالذات مانا۔

اِس کے برعکس رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اسلام میں بدشگونی تو نہیں ہے، (البتہ) نیک فال لینا بہتر ہے، صحابہ نے پوچھا: ’’نیک فال کیاہے؟، آپؐ نے فرمایا: ہر وہ اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنے‘‘، (بخاری) چنانچہ رسول اللہؐ نے بعض مواقع پر بعض امور کو نیک شگون قرار دیا، اس کے معنی یہ ہیں: ’’کسی اچھی علامت کے نمودار ہونے پر اُسے نیک فال قرار دیا جاسکتا ہے‘‘، احادیث مبارکہ سے اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

جب صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش مکہ کے سفارتی نمائندے کے طور پر سہیل بن عَمْرومذاکرات کے لیے آیا، تو آپؐ نے پوچھا: اس کا نام کیا ہے، صحابۂ کرام نے بتایا: اس کا نام سہیل ہے، سہیل کا مادّہ ’’سہل‘‘ ہے اور اس کے معنی ہیں: آسانی، چنانچہ آپؐ نے سہیل کے نام سے نیک فال لیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ نے تمہارا کام آسان کردیا ہے‘‘۔ اِسی طرح سفرِ ہجرت کے موقع پر کفارِ مکہ نے رسول اللہؐ کو گرفتارکرنے والے کے لیے سو اونٹ انعام مقرر کیا تھا، بُرَیْدَہ ٔ اَسْلَمِیْ اس انعام کی لالچ میں آپ کے تعاقب میں نکلا اور تلاش کرتے کرتے آپ کے قریب جاپہنچا۔ سیدنا ابوبکر صدیق نے خطرے کو بھانپ کر آپؐ کو اس کی جانب متوجہ کیا کہ ایک شخص ہمیں نقصان پہنچانے کی غرض سے ہمارے قریب آپہنچا ہے۔ آپؐ نے اس سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے، اُس نے کہا: بُرَیدہ، آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ نے تمہارے لیے ٹھنڈک کا سامان پیدا کردیا ہے‘‘، بُرَیدہ کا مادّہ ’’بَرد‘‘ ہے اور اس کے معنی ہیں: ٹھنڈک، پھر آپؐ نے اُس سے پوچھا: تمہارا خاندان کیا ہے، اُس نے کہا: ’’بنو اسلم‘‘، اِس پرآپؐ نے فرمایا: ہمیں سلامتی مل گئی‘‘، کیونکہ اسلم کے معنی ہیں: ’’خطرات سے محفوظ‘‘، مادّہ ’’سَلَم‘‘ ہے، پھر آپؐ نے پوچھا: تمہارا قبیلہ کون سا ہے، اُس نے جواب دیا: بنو سہم، آپؐ نے فرمایا: تمہارا تیر نکل گیا (سہم کے معنیٰ ہیں: تیر)، چنانچہ بُرَیدہ اور اُن کے سب ساتھی اسلام لے آئے‘‘۔ (سُبُل الھدی والرشاد)

رسول اللہؐ اچھے ناموں کو پسندفرماتے تھے، بعض مواقع پر آپ نے ناموں کو تبدیل بھی فرمایا، آپ نے ’’بَرّہ‘‘ نام کو بدل کر زینب اور جویریہ رکھا، اَصرم کو بدل کر زُرعہ رکھا۔ اِسی طرح آپ ؐ نے ’’عاص، عزیز، عَتَلہ، غُراب، حُباب اور شِہاب‘‘ ناموں کو بھی بدلا۔ سعید بن مُسیَّب نے بتایا: اُن کے دادا کا نام ’’حَزْن‘‘ تھا (اس کے معنی ہیں: سختی)، وہ حضور کے پاس آئے، آپؐ نے فرمایا: تمہارا نام سَھْل ہے، اُنہوں نے کہا: میں اپنے باپ کے رکھے ہوئے نام کو نہیں بدلوں گا، چنانچہ اِسی کے اثر سے ہمارے خاندان کے مزاج میں سختی چلی آرہی ہے۔

رسول اللہؐ کا یہ فرمان: ’’صفر کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘‘، اِس کے معنی ہیں: ماہِ صفر کو جو لوگ منحوس تصور کرتے ہیں، اِس ماہ کے ابتدائی تیرہ دنوں کو بعض لوگ تیرہ تیزی کہتے ہیں، اِس مہینے میں شادی نہیں کرتے، شریعت کی رُو سے یہ سب باتیں بالکل بے اصل اور باطل ہیں۔ احمد رضا قادری سے سوال ہوا: ’’صفر کے آخری بدھ کے متعلق لوگوں میں مشہور ہے: اُس دن رسول اللہؐ صحت یاب ہوئے تھے، لہٰذا وہ اِس خوشی میں شیرینی تقسیم کرتے ہیں، بعض لوگ اِس دن کو نَحس جان کر برتن توڑتے ہیں‘‘، آپ نے جواب دیا: آخری بدھ کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، اس دن برتن توڑنا مال ضائع کرنا اور گناہ کا سبب ہے۔ اس دن آپ کی صحت یابی کا بھی کوئی ثبوت نہیں، بلکہ جس مرض میں آپ کا وصال ہوا، اُس کا آغاز صفر 11ھ کے آخری بدھ کے دن ہوا تھا، ایک روایت کے مطابق سیدنا ایوبؑ کی ابتلا بھی بدھ ہی کے دن شروع ہوئی تھی‘‘۔

رسول اللہؐ کا فرمان: ’’ستارے کی کوئی اصل نہیں‘‘، اِس کے معنی ہیں: بعض نجومیوں کے یہ نظریات کہ ستاروں کی چالیں یا اُن کا کسی خاص برج میں ہونا انسانوں کی تقدیر پر اَثر انداز ہوتا ہے یا یہ کہ فلاں کا ستارہ یہ ہے اور برج یہ ہے اور اُس کا دن یا سال اِس طرح گزرے گا، یہ سب باتیں شریعت کی نظر میں باطل ہیں، علامہ اقبال نے کہا ہے:

ستارہ کیا مِری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فَراخیِ افلاک میں ہے، خوار و زبوں

یعنی ستارہ اپنی مرضی سے حرکت نہیں کرتا، وہ خود قادرِ مُطلق کے حکم کا پابند ہے، اُس کی مَجال نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کرے، فرمایا: ’’سورج کی مَجال نہیں کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے‘‘، (یٰس: 40) کیونکہ: ’’سورج اور چاند اللہ کے نظم کے پابند ہیں‘‘۔ (الرحمن:5) (جاری ہے)