چومکھی لڑائی کا انجام کیا ہوگا

665

سیاست دان پوچھ رہے ہیں کہ انتخاب کب کرائو گے۔ یہ مقررہ وقت پر ہوں گے یا پھر 90 دن بڑھ جائیں گے اور ماضی کی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائی جائے گی۔ آئین یہ کہتا ہے، قانون یہ بتاتا ہے، یہ دونوں دیکھتی آنکھیں اپنے حکم نامہ کا حشر کے پی کے اور پنجاب میں دیکھ رہی ہیں۔ نگراں حکومتیں مزے کررہی ہیں اور ان آنکھوں میں جنہوں نے بٹھایا ہے دھول جھونک رہی ہیں ایک طرف اقتدار سے محرومی کا احساس تڑپا رہا ہے تو دوسری طرف قانون کا تمسخر اُڑ رہا ہے۔ دوسری سمت عوام ہیں کہ ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ اس کا مہنگائی نے دم نکال دیا ہے۔ مہنگائی کٹی پتنگ کی طرح آسمان پر چھلاوہ بنی ہوئی ہے اُسے اس بات سے غرض نہیں کہ انتخاب اب ہوں گے یا کب ہوں گے؟ بس مہنگائی کا جان لیوا عذاب ختم ہو اور وہ دعا کررہے ہیں کہ لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تُو۔ مگر یہ دونوں طبقہ فریاد کناں ہیں اُس ریفری کے سامنے جس کی سیٹی فیصلہ کن ہے۔ سو ابھی وہاں بھی وعدۂ حور کا کھیل جاری ہے۔ اسمبلیاں تڑوانے سے پہلے انہوں نے نگراں حکومت کو عالمی بینک، آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے اختیارات سے مالا مال کراکے یہ تو جتا دیا کہ معاملہ طول ہوگا جو نہ اور پھر ڈیجیٹل مردم شماری کی توثیق کراکر نہلا پر دہلا بھی مار دیا۔ پی پی پی نے اس کو اس حوالے سے قبول کیا کہ اُسے یقین کامل دلایا گیا کہ نگراں وزیراعظم بلاول ہی ہوگا۔ تو مسلم لیگ (ن) نے بھی سوچا کہ نگراں اقتدار کی طولانی ان کی ساکھ کی بحالی کے کام آسکے گی۔ یوں ہی مولانا فضل الرحمن کو آسرا تھا کہ صدر عارف علوی کی معیاد جو پوری ہونے کو ہے اس کا مصلہ اس کے پاس ہوگا۔ مگر یہ کیا ہوا کہ نگراں وزیراعظم بلاول کے بجائے انوار الحق بنادیے گئے اور زرداری کا قول وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے کا کلیہ ان پر دوہرادیا گیا، سو وہ حلف برداری نگراں وزیراعظم میں شریک نہ ہوئے، مولانا فضل الرحمن بھی بھانپ گئے کہ بازی الٹ گئی اور اب دال گلنے والی نہیں وہ بھی دعا دینے اس تقریب میں نہ آئے۔

اس بدلتی صورت حال میں پی پی پی پلٹ کر پھر مقررہ 90 دن کے انتخاب کی طرف بلند آہنگ بے تابی سے ہوئی۔ پی پی پی سندھ کے نثار کھوڑو نے بھی حلقہ بندیوں کو مختصر کرنے اور جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا۔ اور مراد علی شاہ سابق وزیراعلیٰ سندھ نے جاتے جاتے فرمایا کہ وہ اور ان کے رفقا تین ماہ کے بعد پھر ہوں گے۔ ایک طرف پی پی پی نے پریشر بڑھانے کے لیے یہ نعرہ بلند کیا تو دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا کیس جو بارہ سال سے عدالت کی بارہ دری سے جھانک رہا ہے اس کی امید بر کر آئی عدالت نے ماہ ستمبر کی تاریخ عنایت کردی۔ یاد رہے کہ صدر پرویز مشرف نے مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر تبصرہ کیا تھا کہ اس کا فائدہ جن کو ہوا وہ ہی اس کا کردار ہیں۔ اب ایک حلقہ فاطمہ قتل کیس میں اسد اللہ شاہ کی رانی پور درگاہ کے خلاف مہم کو بھی شاہ گروپ کی دُم پر پیر کے مصداق سمجھ رہا ہے۔ جس طرح صحافی عزیز میمن کے قتل کی مہم کو پروان چڑھا کر سیاسی مقاصد اسٹیبلشمنٹ نے حاصل کیے تھے۔ سید محمد منیر شاہ جو معروف درگاہ پیر ذاکری کے گدی نشین اور سابق چیئرمین ٹائون کمیٹی سکرنڈ ہیں انہوں نے خوبصورت تجویز دی ہے کہ اس سانحہ فاطمہ کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔

مولانا فضل الرحمن کے متعلق یہ رائے بھی قائم ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے فیصلے کی روشن میں انہوں نے ایوانوں سے استعفے نہ دے کر اس بات کو ثابت کیا کہ مولوی سے مصلہ لینا بھی مشکل امر ہے چہ جائیکہ اقتدار کی واپسی، سیاست دانوں، عوام اور مقتدر حلقوں کے ساتھ ایک مظلوموں مقہوروں کا طبقہ ہے جو نہ انتخاب کا متمنی ہے، جو مہنگائی کو مشروط طور پر قبول کرنے تک تیار ہے اس طبقہ کا ہر فرد دعا گو ہے کہ رب العزت توقہار ہے ان لیڈروں پر، ظالموں پر راشی پر بھتا خور پر ان حکمرانوں پر جو ان عوامل کے ذمے دار ہیں، وزرا پر وڈیروں پر، ملائوں پر، ڈاکوئوں پر اپنا قہر و غضب نازل فرما جنہوں نے تیری مخلوق کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ اور ایسے حکمران بھیج جو معروف اسکالر پروفیسر مرزا منور نے مشاہدا تحقیق میں نومبر 88ء میں مرد قلندر ڈاکٹر نذیر احمد کی پیش گوئی کے حوالے سے ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے روبرو کی گئی کہ لولی لنگڑی جمہوریت کے بعد ایسا حکمران آئے گا جو تہجد گزار تو نہ ہوگا مگر دین دار ہوگا۔ وہ نہ دائیں دیکھے گا نہ بائیں وہ سخت گیر اقدامات کرے گا۔ آصف نواز جنجوعہ اور قمر باجوہ آرمی چیف صاحبان کی لسٹیں 72 سے 5 ہزار ناموں تک کاغذوں میں رہ گئیں اور ان کو کیفر کردار تک وہ کیوں نہ پہنچا سکے۔ بقول شاعر اقتدار کی لگام تھامنے والے گنگنا رہے ہیں کہ

شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لیٹروں کے ہر ٹھکانے کی!