ایشیا کرکٹ کپ کی پاکستان کی میزبانی میں افتتاحی تقریب کے بعد باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے، پاکستان اس وقت دشمنوں کے نرغے میں ہے اور بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمن اور آستین کے سانپ زیادہ نقصان دہ ہیں خدا خدا کر کے پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھل چکے ہیں اور دعا ہے کہ یہ ملک دشمنوں کی نظر بد سے محفوظ رہے اور ایک مرتبہ پھر امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے، پاکستان کی داخلی صورتحال اس وقت انتشار کا شکار ہے۔ آئے دن ایسے واقعات معمولات میں تبدیل ہو چکے ہیں کہ فاقہ کشی اور تنگدستی کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنے معصوم بچوں کی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں، مہنگائی اور بجلی بلوں کے ستائے ہوئے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان اور احتجاج پر آمادہ ہیں ایسے میں ایشیا کرکٹ کپ کی ابتدائی تقریب میں آئمہ بیگ جو پاکستانی گلوکارہ ہیں اور نیپال کی گلوکارہ نے اپنی آواز کا جادو جگایا، نیپال ایک غیر مسلم ملک اور اس کی گلوکارہ ایک غیر مسلمہ، پاکستان ایک اسلامی ملک اور اس کی گلوکارہ ایک مسلمہ، لیکن اس طرح کی گلوکاری کا نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ مسلمانوں سے اور نہ کرکٹ سے لیکن پاکستانی گلوکارہ جو لباس زیب تن کر کے آئی تھیں انہوں نے شائقین کرکٹ اور چینلوں کے ذریعے پوری قوم کو محظوظ کیا ہو یا نہیں لیکن انہوں نے نیپالی گلوکارہ کو ضرور شرمندہ کر دیا ہوگا جو غیر مسلمہ ہونے کے باوجود کم از کم اپنے روایتی لباس میں تو تھیں لیکن شاید اب بحیثیت مجموعی ہمارا قومی وقار اور حس تباہ ہو چکی ہے، اس موقع پر ہمیں سر سری نکلنے کے بجائے فرمان الٰہی کی روشنی میں رک کر اپنا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے۔
ترجمہ: ’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے‘‘۔ (النور) اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی تفہیم القرآن میں بیان کرتے ہیں۔ ’’موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انہیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بداخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبا لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں۔ لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بدکاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بداخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سدباب کرے۔ اس کے قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا، قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔ (تفہیم القرآن حاشیہ نمبر:16 )
یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی وہ نشان دہی کر رہا ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ رواداری برتی جائے۔ دراصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے‘‘۔ (تفہیم القرآن حاشیہ نمبر:17 )
مورخ جب تاریخ لکھے گا تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا لیکن وہ یہ ضرور لکھے گا کہ اس زمین پر ایک قوم اور ایک ملک ایسا بھی تھا اور اتنا زندہ دل تھا کہ ان کے حالات کتنے بھی دگرگوں کیوں نہ ہوں انہوں نے اپنے جشن بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منائے، خیر مورخ جب بھی تاریخ لکھے لیکن اب بھی اگر پاکستان کے شاپنگ مالز، مارکیٹوں اور ملکی ثقافت کی نمائندگی کرنے والے چینلوں کو دیکھ لیجیے تو آپ کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ اسی معاشرے میں روزانہ بلاناغہ بھوک اور افلاس کی وجہ سے خودکشیاں ہو رہی ہیں، نا انصافی اور حق تلفی اور انسانی بنیادی ضروری سہولتوں کا فقدان ہے، لوگ سڑکوں پر اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے لیے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، ہمارے سیاست دانوں کی کرپشن کی داستانیں پوری دنیا میں الم نشرح ہیں اور رہی سہی کسر ملک کی حفاظت پر مامور اداروں پر دشمن سے زیادہ اپنوں کی کرم نوازیوں نے کی ہوئی ہے لیکن حل کسی کے پاس بھی نہیں ہے، اگست میں پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور اسی مہینے میں ہم نے دھوم دھام سے فائرنگ دھماکوں آتش بازی اور کیک کاٹ کر جشن آزادی منایا لیکن یہ بتانے والا کوئی بھی نہیں کہ پاکستان کیوں معرض وجود میں آیا تھا، اب تک اس کو سنبھالنے کے دعوے تو بہت لوگوں نے کیے ہیں لیکن ابھی تک اس کو سنبھالتے سنبھالتے دو لخت تو کر ہی چکے ہیں، اب تو کھلم کھلا سالمیت پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، ایک طرف ملکی حالات یہ ہیں اور دوسری طرف ملک سے باہر جانے والوں کی قانونی اور غیر قانونی ایک لمبی قطار ہے، ایک طرف تو ہمارے قابل اور کچھ کرنے کا عزم رکھنے والے نوجوان اپنی صلاحیتیں بیرون ملک لگا کر دیگر ممالک کو مختلف شعبوں میں فنی طور سے مضبوط کر رہے ہیں اور دوسری طرف 24 کروڑ کی آبادی میں ہمیں کرکٹ کوچ بھی میسر نہیں، جسارت ہی کی خبر کے مطابق چیف سلیکٹر انضمام الحق نے 25 لاکھ تنخواہ کا مطالبہ کیا ہے جبکہ کرکٹ بورڈ 15 لاکھ کی پیشکش کر چکا ہے، ذرا غور کیجیے کہ جہاں ایک لاکھ میں دو افراد مہینے بھر محنت مزدوری کر کے اپنے دو خاندانوں کو چلانے پر مجبور ہوتے ہیں وہاں ایک شخص کو لاکھوں روپے ماہانہ کا معاوضہ دیا جا رہا ہے، اس سے بڑی معاشرے میں بے انصافی کیا ہوگی، خیر یہ تو ایک محکمہ اسپورٹس کی بات ہے چاول کی دیگ کا تو یہ ایک دانہ ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہیں رک کر نبی کریمؐ کی اس حدیث مبارک کی روشنی میں اپنے رویوں کا جائزہ لیں۔ وطن عزیز کے حوالے سے جن مسائل اور دشواریوں کا مختلف پیرائے میں ذکر کیا جاتا ہے ان سب کا سبب درج ذیل کی حدیث مبارکہ میں غور و تدبر سے دیکھا بھی جا سکتا ہے اور حل بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
’’سیدنا معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہاری عورتیں سرکش اور بے قابو ہو جائیں گی تمہارے نوجوان بدچلن ہو جائیں گے اور تم جہاد کو چھوڑ دو گے لوگوں نے کہا کیا ایسے بھی ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا ہاں، پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس سے بھی زیادہ خراب صورتحال تم دیکھو گے پوچھا گیا وہ کیسے ارشاد فرمایا تم نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا چھوڑ دو گے لوگوں نے کہا کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ آنے والا ہے کہ تم نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی سمجھنے لگو گے لوگوں نے کہا کیا ایسا وقت آسکتا ہے آپؐ نے فرمایا ہاں قسم ہے اس ذات اقدس کی اس سے بھی زیادہ مشکل وقت یہ آئے گا کہ تم برائی کا حکم کرنے لگو گے اور نیکی سے روکنا شروع کرو گے لوگوں نے کہا کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس سے بھی زیادہ مصیبت آنے والی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہے جب لوگ ایسی حالت میں پہنچ جائیں گے تو میں انہیں ایسے فتنوں میں مبتلا کر دوں گا کہ ان کے دانشمند حیران رہ جائیں گے‘‘۔
سوچیے اور غور کیجیے کہ کیا واقعی ہمارے دانشمند حیران نہیں ہیں، کہ ہمارے مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ ہوتا ہے تو تان آ کر چند سیاست دانوں پر ٹوٹتی ہے جو کہ کچھ غلط بھی نہیں ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر جھانکنے کا ہمارے اندر حوصلہ بھی نہیں ہے کیونکہ بحیثیت مجموعی اور بحیثیت قوم سیاستدانوں کے بعد ہر جگہ انفرادی طور سے ہر شخص کا عکس اس میں نظر آئے گا، کراچی کی ایک درمیانی بستی میں سندھ بلڈنگ کے ایک نچلے درجے کے افسر کی رہائش ہے بقر عید کے موقع پر جا کر دیکھیے تو صرف ان کے گھر کے آگے لاکھوں کی مالیت کے کئی جانور بندھے ہوئے ہوتے ہیں یہ سب ہمیں بہت کچھ بتا رہا ہے، دراصل ہمارا مزاج ہی مجموعی طور سے ایسا بنا دیا گیا ہے اور عمومی طور سے لوگ اس رو میں بہہ رہے ہیں اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں، مزاج یہ بنا دیا گیا ہے کہ افراد کو پھانسیوں پر لٹکا دو اور اداروں کو بھسم کر دو لیکن کیا پھانسیاں دینے اور اداروں کو بھسم کر کے کیا پاکستان اپنے ان مقاصد کی طرف چل پڑے گا کہ جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا ہے، نئے لوگوں کی جگہ پرانے لوگ لے لیں گے اور پھر تھوڑے سے تعطل کے بعد یہ کھیل پھر شروع ہو جائے گا، صرف سزائیں کافی نہیں بلکہ ایک اخلاقی نظام کو بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ کرے گا کون، یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ دیانت اور امانت کی بات کی جائے تو کون سی قیادت اور کون سی پارٹی ہے جو قیام پاکستان سے اب تک دیانت امانت اور خدمت کی کتنی اور بے لوث مثالیں پیش کر چکی ہے لیکن نامعلوم کیوں ہم تاریخ سے سبق سیکھنے پر راضی نہیں۔