کراچی: جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے تحت4ستمبر عالمی یوم حجاب کے سلسلے میں ملک بھر میں کی گئی سرگرمیوں کی طرح کراچی میں بھی کراچی پریس کلب کے سامنے خواتین کی واک کی گئی جس میں شہر بھر سے خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
واک میں خواتین وکلا، خواتین صحافیوں اور مختلف این جی اوز کی نمائندہ خواتین سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ خواتین شامل تھیں۔ واک کی شرکا نے اسلامی اقدار و روایات، خاندان کے تحفظ و اہمیت اور عورت کو حجاب کے حق کی آزادی اور تہذیب ہے حجاب کے حوالے سے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اُٹھائے ہوئے تھے۔
نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے واک کی شرکا سے خطاب کیا۔ اس موقع پرناظمہ کراچی اسماء سفیر ودیگر خواتین ذمہ داران بھی موجود تھیں جب کہ اسما سفیر نے واک میں شریک خواتین صحافیوں اور دیگر مہمان خواتین کو اسکارف کا تحفہ پیش کیا۔ علاوہ ازیں خواتین واک میں ایک قرار داد بھی پیش کی گئی۔
ڈاکٹر اسامہ رضی نے واک کی شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی واک کراچی کی تمام خواتین کی ایک نمائندہ واک ہے، آج خواتین اس امر کا واضح طور پر اعلان کر رہی ہیں کہ حجاب ہماری تہذیب اور پہچان ہے، اسلامی معاشرے میں مرد اور عورت کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں، خواتین اسلام کے عطا کیے گئے حقوق و فرائض اور اسلامی اقدار و روایات پر پوری طرح یقین رکھتی ہیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ مغربی اقدار و روایات اور مغربی تہذیب و ثقافت کو مسلط کرے۔
ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہا کہ عالمی یوم حجاب کے موقع پر خواتین مغرب کے دہرے معیارات و رویے، متعصبانہ سوچ اور ہتھکنڈوں کو بھی مسترد کرتی ہیں جس میں مغرب نے اپنی مرضی کے اصول اور ضابطے بنائے ہوئے ہیں، مغرب نے اپنے لیے کچھ اور دوسروں کے لیے کچھ اور اصول بنائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آزادی اظہارِ رائے کے نام پر قرآن پاک کی بے حرمتی اور گستاخانہ خاکے بنانے کو تو گوارہ کر لیا جاتا ہے بلکہ درپردہ اس کی سرپرستی کی جاتی ہے لیکن ایک خاتون کو اسکارف پہننے کی آزادی اور اجازت دینے پر تیار نہیں۔ عورت کے اسکارف اور حجاب کو وہ اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ فرانس میں ایک مسلم عورت کو اسکارف پہننے اور حجاب اختیار کرنے کے اس کے بنیادی حق سے محروم کرنا عورت کی آزادی اور آزادی اظہار رائے پر حملہ نہیں تو اور کیا ہے؟
ڈاکٹر اسامہ رضی کا کہنا تھا کہ مغرب پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنے اور انسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے ان مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ خواتین واک میں منظور کی جانے والی قرار داد مطالبہ کیا گیا ہے کہ خواتین کے بنیادی حقوق کی پاسداری کی جائے اور خواتین کا اسلامی تشخص متاثر نہ کیا جائے۔او آئی سی، مغرب پر دباؤ ڈالے کہ وہ حجاب پر پابندی کے امتیازی قوانین کو فوری ختم کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم حکمران اور حقوق نسواں کی تحریکیں اس معاملے میں مسلم عورت کے حقوق کی پاسبانی کریں،شرم و حیا، عفت و عصمت اور غیرت و حمیت کے اوصاف کو اجاگر کرنے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں اور امہات المومنین کو بطور نمونہ پیش کیا جائے۔خواتین اور بچیوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث مجرمان کو عبرت ناک سزا دی جائے اور زیادتی و بے راہ روی پر اکسانے والے محرکات پر بند باندھا جائے۔
تعلیمی اداروں میں منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال اور نازیبا وڈیو اسکینڈل جیسے واقعات لمحہ فکریہ ہیں، اس کی روک تھام کے لئے فوری اور مربوط اقدامات کئے جائیں۔اسلامی تہذیب ہی معاشرے، خاندان اور عورت کی فلاح کی ضامن ہے لہٰذا اخلاقی بے راہ روی کے سد باب کے لیے حکومت ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسلامی اقدار کی ترویج کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ وطن عزیز صحیح معنوں میں اسلامی و خوشحال پاکستان بن جائے۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی، بے پردگی، فحاشی میں معاون، میڈیا کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا جائے اور چادر اور چار دیواری کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔قرار داد میں مزید کہا گیا ہے کہ مغرب جو آزادی حقوق نسواں اور انسانی حقوق کا چیمپئن بنتا ہے اس قسم کے امتیازی و جابرانہ اقدامات کے ذریعے اپنی ہی روایات کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔
ایک مسلم خاتون دنیا میں کہیں بھی حجاب اختیار کرتی ہے اسکارف لیتی ہے تو یہ اس کا بنیادی حق ہے اس حق کو سلب کرنا تہذیبی عدم رواداری اور عدم برداشت کا مظہر ہے اور اس کو قانونی شکل دینا قانونی اور دستوری انتہا پسندی ہے۔