وطن ِ عزیز میں حالیہ پٹرول کی قیمتوںکی لگا ئی آگ اور بجلی کے جھٹکوں سے جو عوام تو کیا خواص کی جو حالت ہو چکی ہے، اب اس پہ کسی قسم کی بھی لیپا پوتی نہیں کی جا سکتی۔ دوسری جانب نگران وزیر خزانہ کی سینیٹ کمیٹی کو دی گئی بریفنگ کے مندرجات خاصے پریشان کن ہیں، یوں اپنے ہاتھ کھڑے کردینا اور اپنی بے بسی کا اظہار کرنا، عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، حالانکہ موجودہ نگران حکومت کو تاریخ میں پہلی مرتبہ وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔ درحقیقت ہماری تمام حکومتیں بجلی کے مہنگے معاہدوں میں تخفیف نہیں کرا سکیں بلکہ عوام کی جیبیں خالی کرانے کے منصوبوں میں سہولت کارکا کردار ادا کرتی رہی ہیں مگر اب تو کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا بلکہ عوام پر ساری واردات آشکار ہوچکی ہے۔ ملک میں اِس وقت عوام میں اشتعال جوبن پر ہے ہر مکتبہ فکر سڑکوں پر ہے، مہنگائی سے تنگ شہری بجلی کے بل دیکھ کر بپھر ے نظر آتے ہیں، عوام کا ایسا شدید ردِ عمل زیادہ حیران کُن نہیں۔ شاہراہوں، چوراہوں اورگلی محلوں میں احتجاج جاری ہے تو صورتحال اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف خود کشیوں کے رجحان میں اضافہ ہوگیا ہے، لیکن اِس بدترین صورتحال کا حکومتی حلقوں کو ادراک ہے؟ بظاہر حکومتی صفوں میں اطمینان اور آسودگی دیکھ کر جواب نفی ہی بنتا ہے جسے سنگدلی اور سفاکی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ممکن ہے مہنگائی پر عوام صبرکرلیتے لیکن مہنگی بجلی سے فیکٹریاں اورکارخانے بند ہونے سے روزگار میں کمی آ چکی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں اور میڈیا پر بیٹھے دانشور جب بجلی کے موضوع پر بات کرتے ہیں تو وہ صرف اور صرف گردشی قرضوں کے بڑھ جانے کا ذکر کرتے ہیں اور ان کو جلد از جلد اتارنے کی بات کرتے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے یہ احکامات جاری کیے ہیں کہ بجلی کی قیمت بڑھائی جائے تاکہ گردشی قرضوں کی ادائیگی میں تعطل نہ ہو اور ادائیگی مسلسل ہوتی رہے۔ ان دانشوروں میں سے کوئی بھی اس مسئلے کی جڑ یعنی سرمایہ داروں کی منافع خوری اور عالمی مالیاتی اداروں کی عوام و مزدور دشمن پالیسیوں پر بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ بجلی کے بحران کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ مسئلے کو جڑ سے پکڑا جائے۔ اس وقت گردشی قرض 2310 ارب ہے، اس وقت ملک میں سالانہ 467 ارب کی بجلی چوری ہو رہی ہے، چوری لائن لاسز، ڈیفالٹرز کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ کمیٹی نے پاور ڈویژن سے ریکوری، چوری اور نقصانات کی تفصیلات طلب کرلیں، ارکان کمیٹی نے بتایا کہ آئی پی پیز کے معاہدے عوام کو لے ڈوبے ہیں، آئی پی پیز نے سرمایہ کاری کی رقم میں اوور انوائسنگ کی ہے، ارکان کمیٹی نے کہا کہ انکوائری ہونی چاہیے۔
پاکستان کا پاور سیکٹر گردشی قرضوں کے دائمی مسئلے کا شکار ہے، جو بجلی کی سپلائی چین میں مختلف اسٹیک ہولڈرزکی جانب سے واجب الادا بلوں کا جمع ہونا ہے۔ گردشی قرضے کئی عوامل کی وجہ سے ہوتے ہیں، جیسے صارفین (خاص طور پر سرکاری شعبے کے اداروں) کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر، غیر لاگت پر غور کرنے والے ٹیرف، سبسڈیز، نااہلی، بدعنوانی اور گورننس کے مسائل۔ گردشی قرضہ 2کھرب روپے (تقریباً 12 ارب ڈالر) تک پہنچ چکا ہے، جس سے بجلی کے شعبے کی لیکویڈیٹی اور افادیت متاثر ہوتی ہے۔ حقائق کچھ یوں ہیں کہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ڈیمز اور نیوکلیئر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے ساتھ پاور پلانٹ لگا کر فرنس آئل سے بجلی بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور نجی کمپنیوں کو پاور پلانٹس لگانے کی اجازت دے کر اُن سے حکومت نے بجلی خریدنے کے ایسے معاہدے کیے جن کا فی یونٹ ریٹ دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی سے تین گُنا زیادہ رکھا گیا، مزید ستم یہ کہ تمام معاہدے ڈالر میں کیے گئے جس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ اول تو سرمایہ کار غیر ملکی ہیں جو بجلی بنانے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے آ رہے ہیں۔ دوم، جس فیول سے بجلی بنائی جانی ہے وہ بھی درآمد کرنا ہوگا اِس طرح فیول درآمد کرنے اور منافع کی ادائیگی ڈالر میں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا یہ ایسی واردات تھی جو ابتدا میں تو کسی کو سمجھ میں ہی نہ آئی اِکا دُکا مخالفانہ آوازیں جو سنائی بھی دیں اُنہیں بھی حیلے بہانوں سے خاموش کرا دیا گیا، مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ن لیگ اقتدار میں آئی تو اُس نے بھی اِن نجی کمپنیوں کو چیرہ دستیوں سے نہ روکا بلکہ ہر حوالے سے سرپرستی شروع کردی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ نجی کمپنیاں سالانہ ایک ہزار ارب سے زائد منافع کما رہی ہیں نیز کوئی پاور پلانٹ بجلی پیدا کرے یا نہ کرے بلکہ اگرکوئی پلانٹ بند بھی رہے تو بھی بجلی پیدا کرنے کی اُس کی استطاعت کے مطابق حکومت اُسے ادا کرنے کی پابند ہے یہی پاور سیکٹر میں گردشی قرضے کی وجہ ہے کیونکہ ملک میں اکثر کارخانے بند ہونے سے ہمارے پاس برآمدی سامان کی کمی ہونے سے ضرورت کے مطابق ڈالر نہیں آ رہے لیکن نجی پاورکمپنیوں کو ہر صورت ادائیگی ڈالر میں کرنا ہوتی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی اِس کا نتیجہ خیز حل تلاش کرنے پر آمادہ نہیں سب اپنے معمولی مالی فائدے کے لیے پوری قوم کو اندھیروں کے حوالے اور دیوالیہ کے قریب پہنچا گئے۔ جس طرح بجلی کی پیدا وار کو نجی شعبے میں دیا گیا اسی طرح بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو بھی آہستہ آہستہ کر کے نجکاری کی بھینٹ چڑھانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ ملک میں مہنگی بجلی کے منصوبوں سے جان چھڑانے کے بے شمار مواقعے ہیں جن سے فائدہ اُٹھا کر عوامی ردِ عمل کی شدت کم کی جا سکتی ہے لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ آئی پی پیز سے ملنے والے مالی مفادات کو چھوڑ کر فیصلے کیے جائیں۔
نگران حکومت کے پاس موقع ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا از سر نو جائزہ لے کر انہیں عوامی مفاد کے مطابق بنائے، اِس حوالے سے جتنی تاخیر کی جائے گی وہ عوامی نفرت کی شدت میں اضافے کا سبب بنے گی جس سے ملک مزید سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہوتا جائے گا۔ ایک سے زائد بار حکومت کی توجہ ماہرین اِس جانب مبذول کرا چکے ہیں کہ درآمد کیے جانے والے فرنس آئل سے بجلی بنانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے دیگر ذرائع ڈیمز، نیوکلیئر اور ونڈ انرجی پر انحصار بڑھایا جائے لیکن ہر حکومت میں نجی کمپنیوں سے مالی مفاد لینے والے اُن کے نمائندے ایسے کسی فیصلے کی نوبت نہیں آنے دیتے بلکہ نجی کمپنیوں کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں اب جب کہ حکومت کو بظاہر کسی دباؤ کا سامنا نہیں اُسے عوامی مفاد کے لیے اقدامات میں سُستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ خوشی قسمتی سے پاکستان میں سارا سال سورج چمکتا ہے جس کی وجہ سے غیر معمولی سولر انرجی کے مواقعے ہیں جن سے فائدہ نہ اُٹھانا کفران نعمت ہے آٹھ سو کلومیٹرکی طویل ساحلی پٹی ونڈ انرجی
کے لیے بہترین ہے جس سے ضرورت کے مطابق بجلی انتہائی سستے داموں مل سکتی ہے لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ درآمدی فرنس آئل اور کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے ختم کیے جائیں۔ آئندہ تعمیر ہونے والی کمرشل اور گھریلو عمارات کے نقشہ جات کی منظوری کے قواعد وضوابط میں سولر انرجی کا اضافہ کرنے سے بھی بجلی کی کافی حد تک بچت کی جا سکتی ہے۔ ٹرانسمیشن لائن لاسز، چوری اور مفت بجلی کی سہولت ختم کرنا بھی بحران کے حل میں مددگار ہو سکتا ہے۔
ایک تحقیقی سروے جو81 ترقی پزیر ممالک پر ہوا جنہوں نے آئی ایم ایف سے 1986 تا 2016 کے دوران قرضہ لیا۔ ان کے بارے پتا چلا کہ ان ممالک کے عوام بنیادی اصلاحات کی پابندی کے زیر اثر اکثریت میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ جس کے نتیجے میں بیروزگاری میں اضافہ، حکومتی محصولات میں کمی اور بنیادی سروسز کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اپنا احتساب ہر ایک خود کرے اور ٹھنڈے دل سے سوچے ہم سے کہاں کہاں کوتاہی ہو رہی ہے۔ دنیا میں صرف اس قوم کو عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے جو ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری میں صف اول میں کھڑی ہوتی ہے۔ اب ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ ہم کس طرح اس قرض سے جلد از جلد نجات حاصل کرتے ہیں اور اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرتے ہیں۔