قیادت کا سفر

665

یوں تو یہ ایک کتاب کی تقرہب رونمائی تھی لیکن اصل میں یہ ایک تاریخ سے آگاہی کے قیمتی لمحات تھے۔ اس کتاب میں جو تاریخ اور رہنمائی موجود ہے وہ تو اپنی جگہ اہم اور بیش بہا خزانہ ہے۔ لیکن خود یہ تقریب بھی بہت خوب تھی۔ منظم اور مربوط ہر لحاظ سے خواتین کی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار جس میں شریک بذات خود ایک اعزاز ہی محسوس ہورہا تھا۔ وہ کتاب جس کی رونمائی کی تقریب تھی ’’قیادت کا سفر‘‘ تھی جس میں جماعت اسلامی خواتین پاکستان کی تین رہنما خواتین کی کہانی انٹرویو کی زبانی موجود ہے۔ ہر ایک کی کہانی ایک علیحدہ اور طویل سفر کی داستان ہے۔ جس سے ہر ایک مرد و زن کی قید سے مستثنا ہو کر اپنے لیے زاد راہ سمیٹ سکتا ہے۔ خاص طور سے وہ جس نے زندگی ایک مقصد کے تحت گزارنے کا تہیہ کر رکھا ہو اور اپنے آپ کو لمحہ لمحہ منزل سے قریب تر رکھنے کا خواب آنکھوں میں سجا رکھا ہو۔ جماعت اسلامی شعبہ خواتین کا قیام فروری 1948ء میں عمل میں آیا اور مارچ 1948ء میں آپا جی حمیدہ بیگم کو اتفاق رائے سے حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی پہلی قیمہ چن لیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آخری وقت تک آپا حمیدہ بیگم پر تمام خواتین کا اعتماد رہا اور یوں وہ اپنی ذمے داریاں انجام دیتے ہوئے رخصت ہوئیں۔ یہ ابتدائی زمانہ تھا اس وقت تک قیمہ کے ایک مقرر دور کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔
خواتین کے لیے گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ بیرونی سرگرمیوں اور دفتری کارروائی کا کام آسان نہیں ہوتا ان میں توازن قائم کرنا اور پھر اُس کو برقرار رکھنا نہ اُس وقت آسان تھا نہ آج آسان ہے، لیکن جماعت اسلامی کی تربیت اس کو آسان بنادیتی ہے کیوں کہ وہاں خلوص نیت، اللہ سے محبت اور ہر کام صرف اور صرف اللہ کے لیے کرنے کا نسخہ گھوٹ کر پلایا جاتا ہے پھر جو ذمے داری جس پر ڈالی جاتی ہے اس کو وہ ذوق و شوق سے دل کی لگن اور جذبہ صادق سے مکمل کرنے کی حتیٰ الامکان کوششیں کرتا ہے، نام اور ستائش کی کسی کو تمنا نہیں ہوتی ہے کہ ’’جو مرمٹے تیرے نام پہ اُسے کیا غرض ہے نشان سے‘‘۔ دوسری قیمہ جماعت اسلامی آپا اُم زبیر تیسری آپا نیئر بانو اور چوتھی قمر جلیل تھیں۔ یہ چاروں اللہ کے حضور حاضر چکی ہیں۔ اس کتاب میں تین قیمات کے انٹرویو موجود ہیں۔ عائشہ منور جو 1994ء سے 2002ء تک تین سیشن کے دوران قیمہ رہیں۔ دوسری کیپٹن ڈاکٹر کوثر فردوس جو 2002ء سے 2008ء تک قیمہ منتخب کی گئیں۔ انہوں نے 1990ء میں پہلی باپردہ کیپٹن ڈاکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ تیسری قیمہ جن کا انٹرویو اس کتاب میں شامل ہے وہ ڈاکٹر رخسانہ جبیں ہیں جو 2008ء سے 2014ء تک منتخب قیمہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیتی رہیں اور اب 2014ء سے آج تک دردانہ صدیقی صاحبہ موجودہ قیمہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین ہیں۔ تقریب میں یوں تو بہت سارے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا مگر محترمہ طلعت وزارت نے جس انداز سے جماعت اسلامی کے بارے میں اظہار خیال کیا وہ نہ صرف اہم تھا بلکہ آج قحط الرجال کے دور میں ایک عملی حل بھی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’جماعت کا یہ اچھا طریقہ کار ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کی تربیت کرتا ہے۔ انہوں نے گرومنگ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں کسی جماعت میں نہیں ہوں لیکن جماعت کی اس پالیسی کی حامی ہوں اور اُن کی قیادت کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہوں کہ یہاں وراثت کا نظام نہیں ورنہ ہر جماعت میں اپنے ہی رشتے داروں کو یعنی بیوی، بیٹی، بہن ہی کو آگے لایا جاتا ہے۔ یوں خواتین اپنی قابلیت کے بجائے رشتے داری کی بنیاد پر آگے لائی جاتی ہیں۔ مرد لیڈر شپ کا بھی یہی حال ہے۔ جماعت اسلامی میں چھوٹے لیول سے آگے لاتے ہیں انہیں گروم کرتے ہیں اور یوں میچور لیڈر شپ سامنے آتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے یونین کے الیکشن کے ذریعے نوجوان قیادت کو سامنے لاتے ہیں اور اس کی تربیت کرتے ہیں۔ اس طرح ملک کو نوجوان قیادت میسر آتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ جنرل ضیا نے 1984ء میں طلبہ یونین پر پابندی لگائی تھی بعد میں پیپلز پارٹی نے 1989ء میں یونینز کو بحال کردیا لیکن پھر عدالتی فیصلے کے ذریعے ان پر قدغن لگائی گئی، حالاں کہ تعلیمی اداروں میں نظریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ اور دفاع ضروری ہے۔ طلبہ کی فکری و نظریاتی تربیت کے لیے تعلیمی اداروں میں یونینز اور تنظیمیں ہونی چاہئیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آج تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور اداروں کے اہل کار اس طرح طلبہ و طالبات کے ساتھ غلیظ حرکات کے مرتکب نہ ہوتے یونینز طلبہ کی ایک اجتماعی طاقت ہوتی ہیں طلبہ یونین کی غیر موجودگی نے اداروں کے حکام کو احتساب کے معاملے میں بے نیاز کردیا ہے۔ یہ بات کسی نہ کسی طرف سے بار بار دہرائی جاتی ہے کہ طلبہ کو سیاست کے بجائے تعلیم پر توجہ دینی چاہیے کہ سیاسی سرگرمی تعلیمی کارکردگی کے لیے نقصان دہ ہے حالاں کہ اس بات کا تعلق حقیقت سے نہیں۔ آج دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں میں آکسفورڈ سے لے کر ہاورڈ تک سب میں طلبہ یونینز موجود ہیں جبکہ ہمارے سیاسی لحاظ سے کنٹرول تعلیمی ادارے دنیا کی دو سو اعلیٰ تعلیمی اداروں (یعنی یونیورسٹیز) میں کہیں موجود نہیں ہیں۔