باپ برائے فروخت

624

آسماں سے اٹھتے بادل تو سبھی نے دیکھے ہوں گے- لیکن سر سے باپ کا سایہ فروخت کرتے بچوں کو شاید ہی کسی نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو، آسماں کیوں نہ گرا زمین کیوں نہ پھٹی۔
پچھلے ہفتے پریس کلب کے باہر چند بچے پلے کارڈ اْٹھائے ہوئے احتجاج نہیں بلکہ بے ضمیر حاکم وقت سے التجا کر رہے تھے اور پلے کارڈ پر دل خراش جملے لکھے ہوئے تھے کہ باپ برائے فروخت میں دور بیٹھا دیکھ رہا تھا اور میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے اْن بچوں کی عمریں لگ بھگ 5 سال سے 15 سال تک کی تھیں، جن کے چہروں پر زندگی سے مایوسی اور آنکھوں میں اْداسی صاف دکھائی دے رہی تھی، ایک عاجز گھر کی تصویر بنے مہنگائی اور حالات کے مارے یہ بچے اپنے خاندان کو بچانے کے لیے اپنی آخری پونجی اپنے سر سے باپ کے سائے کو مناسب دام میں فروخت کرنے پر مجبور تھے، اور ساتھ کھڑا باپ اپنے خاندان کی غربت کی سخت گرفت سے لڑتے لڑتے تھک چکا تھا، اور گردن جْھکائے کسی خریدار کا منتظر تھا جو اپنے خاندان کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خدمات فروخت کرنے کے دل دہلا دینے والے نہج کو پہنچ چکا تھا، یہ کہنا کہ باپ برائے فروخت کوئی مذاق نہیں بلکہ یہ عمل ایک خوفناک حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، اور اْن معصوم بچوں کے ذہینوں پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہوں گے، یہ سوچتا ہوا اب میں بوجھل قدموں کے ساتھ اْن بچوں کے درمیان تھا اور سوچنے لگا کہ کس بچے سے بات کروں اچانک میری ایک بچے سے نگاہ چار ہوئی تو میں نے اس کو اشارے سے اپنے پاس بْلایا تو وہ میرے پاس آگیا اْس کی عمر لگ بھگ تیرہ چودہ برس کی ہو گی میں نے شفقت سے اْس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اْس کو مجمعے سے دور لے گیا اور ہم ایک چبوترے پر بیٹھ گئے، میں نے ابھی اْس سے کچھ پوچھا بھی نہ تھا صرف سر پر ہاتھ رکھا تو وہ زار و قطار ہچکیوں سے رونے لگا، تھوڑی دیر تو میں بھی خاموش رہا، مگر اْس کی آنکھوں سے بہتے آنسو جیسے کہ رہے ہوں انکل میں نے تو سْنا تھا بارگاہ ربّ العزت میں آنسوں کی درخواست رد نہیں ہوتی، آنسوں سے زمانے بدلتے ہیں، مقدر بدلتے ہیں، نوشتے بدلتے ہیں، حوادث کے طوفانوں کے رْخ پھر جاتے ہیں گردش ایام کے طور بدل جاتے ہیں مگر میرے آنسوں میری بدنصیب قسمت کی طرح بے توقیر نکلے اور میری دعائیں فضا میں معلق ہو کر رہ گئیں۔
میں نے اس کو تسلی دی تو وہ ہچکیوں کے ساتھ روتے روتے کہنے لگا، انکل والد صاحب 8 ماہ سے بے روزگار ہیں دل کا دورہ پڑنے سے ملازمت ختم ہو گئی اس دوران سارے بہن بھائی اسکول سے نکال دیے گئے، کچھ عرصہ گھر کا سامان بیچ کر دو وقت کی روٹی چلتی رہی پھر بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے اماں کی بالی جو دادی نے ان کو منہ دکھائی میں دی اس کو بھی بیچنا پڑا اور پھر کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے مالک مکان نے بھی گھر سے نکال دیا، یوں اب ہم لوگ ایک پْل کے نیچے کْھلے آسمان تلے موجود ہیں، میں نے اْس سے پوچھا تم نے کچھ کھایا ہے آو چلو کچھ کھا کے آتے ہیں، اْس کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے کہنا لگا امی ابو اور میں نے تین دن سے ایک نوالہ منہ میں نہیں رکھا چھوٹے بہن بھائیوں کو بسکٹ کھلا کر یہاں لائے ہیں، تو میں کیسے کھا لوں، اْس کے انداز اور لب و لہجے سے ایک خاندانی وقار کا احساس ہوتا تھا، دوسرے دن کراچی کے مختلف اخبارات میں ان بچوں کی تصویریں اور خبر بھی شایع ہوئیں اور بس، یہ المیہ ہے ہمارے معاشرے کا اور بے ضمیر حکمرانوں کا، نہ جانے ایسے کتنے سفید پوش ہوں گے جو ان مسائل سے گزر رہے ہوںگے۔
ہوشرباء مہنگائی نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی کی چکی عوام کو پیس رہی ہے۔ غربت اور مہنگائی کے سونامی روز کا معمول بن گئے ہیں، قیمتیں چند دنوں سے زیادہ برقرار نہیں رہتیں، افراط زر کا گراف دن بدن بڑھ رہا ہے۔ عوام اضطراب اور بے چینی کے مریض بن گئے ہیں۔ لیکن افسوس حکمرانوں کے پاس سننے والے کان، دیکھنے والی آنکھیں اور توجہ دینے والے حکام نایاب ہیں۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے تسلسل نے ملک کی معیشت کو لاغر کر دیا ہے اور غریب عوام کی آنکھیں کربناک حالات کو دیکھ کر پتھرائی ہوئی ہیں، اور دوسری طرف عوام ایسے بے ضمیر لوگوں کو مسند اقتدار پر بیٹھا کر اْن سے خیر کی توقع کرتے ہیں بس اب بہت ہو گیا اب اپنا حق چھینے کے لیے سڑکوں پر نکلنا ہوگا، اور اپنا حق بزور طاقت حاصل کرنا ہو گا ورنہ ایسے دل خراش واقعات آپ کو روز دیکھنے کو ملیں گے، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔