بغیر انصاف کے کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ حکمرانوں اور ملک چلانے والے اداروں کو سوچنا پڑے گا، غریب کب تک بھوکا سوتا رہے گا، حالات سے تنگ آکر خودکشیاں کرتا رہے گا۔ اقوام متحدہ بھی غریبوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے، غریب ملکوں اور ان کی بقا و سلامتی کے لیے ایک مضبوط قانون بنایا جائے، ترقی یافتہ ممالک میں امیروں کے ٹیکس سے غریبوں کی کفالت ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں غریبوں کے ٹیکس سے امیروں کی کفالت ہورہی ہے۔ افسر شاہی، وزیر مشیر اور پروٹوکول کے لیے ملک میں 90 ہزار گاڑیاں موجود ہیں جن کی مالیت اربوں روپے پاکستانی بنتی ہے۔ اُس پر سونے پہ سہاگہ 220 ارب روپے کا مفت پٹرول فراہم کیا جاتا ہے، ان کے لیے 550 ارب روپے کی مفت بجلی بھی فراہم کی جاتی ہے، جب کہ دوسری طرف اس ملک کا غیر مراعات یافتہ طبقہ ہے جو 300 روپے لٹر پٹرول خریدنے پر مجبور ہے، جو لوگ اپنی موٹر سائیکل میں 300 کا پٹرول ڈلواتے تھے آج سو روپے کا ڈلوانے پر مجبور ہیں۔ اگر 2 ماہ بجلی کا بل ادا نہ کیا جائے تو اس غریب کی بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔ ایک آزاد شہری نے عدالت عظمیٰ کو درخواست دی کہ 2020ء میں ملک نے بے حد قرضے لیے جس کی ایک ہی سماعت ہوئی اس کے بعد سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی مگر چیف صاحب نے جو بات کی وہ بھی سچ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے آئینی حد سے زیادہ قرضے لینے سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ ملک کو ابتر معاشی صورت حال کا سامنا ہے اور یہ بہتر وقت نہیں کہ عدالت اس قسم کی درخواست کو سنے۔ عدالت عظمیٰ کو معاشی مسائل میں مت الجھائیں عدالت پہلے ہی بہت سے معاملات میں الجھی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے اس بات کو تسلیم بھی کیا کہ ملک کو ابتر معاشی صورت حال کا سامنا ہے۔ کاش چیف صاحب اس پورے کیس کو سن لیتے اور ملک و قوم کے حق میں کوئی تاریخی فیصلہ دے دیتے۔
محکمہ تعلیم سندھ میں بوگس بھرتیوں کا معاملہ نیب نے انکوائری شروع کردی، 34 برس میں ہونے والی ملازمین کی بھرتیوں کی انکوائری تمام اضلاع کے افسران سے ملازمین کا ریکارڈ طلب، 2013ء سے 2017ء تک بھرتیوں پر پابندی کے باوجود پرانی تاریخوں میں ہزاروں کی تعداد میں ٹیچرز سمیت دیگر عملے کی بھرتیاں کی گئیں، اس پر میں نے ایک کالم تحریر کیا تھا یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہوا، آخری بھرتیاں پیر مظہر الحق جو تعلیم کے وزیر تھے اُن کے دور میں کروائی گئی، کیونکہ بھرتی کا اختیار قانون کے مطابق ڈی ای او کو ہوتا ہے، لہٰذا اُس پر سیاسی دبائو ڈال کر یہ کام کروایا گیا۔ حکومت سندھ جانتی تھی کہ جب یہ کرپشن سامنے آئے گی تو اس ڈی ای او کو معطل کردیں گے، اس کو تنخواہ ملتی رہے گی اور جب یہ کیس ٹھنڈا ہوجائے گا تو اس افسر کی کسی دوسری جگہ پوسٹنگ کردی جائے گی۔ اس خبر سے محکمہ تعلیم میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ ابن آدم کہتا ہے صرف تعلیمی ادارے ہی کیوں حکومت سندھ کے ہر ادارے کی یہی کہانی ہے۔
بجلی کے بلوں نے تو پاکستانی قوم کو نہ صرف بھوکا مار دیا ہے بلکہ ذہنی مریض بنادیا ہے۔ اب تو عوام کے الیکٹرک کے عملے کو دیکھ کر نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اے ابن آدم یہ سارا کھیل تو تمہارے حکمرانوں اور آئی ایم ایف کا ہے۔ مجھے معلوم ہے بجلی کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ بل کی ادائیگی کے لیے گھروں کی چیزیں فروخت کرنی پڑ رہی ہیں، یہ تمہاری بدنصیبی کے جن کو تم ووٹ دے کر اقتدار میں لے کر آتے ہو وہ تمہارے مسائل کو حل کرنے کے بجائے تمہارا سودا کرلیتے ہیں۔ جماعت اسلامی ایک واحد جماعت ہے جس نے تمہارے مسائل پر آواز اٹھانے کی قسم کھائی ہے۔ ارے حد ہے بجلی کا بل وصول کرو مگر تم نے تو فیول ایڈجسٹمنٹ، سرچارج، یونیفارم سمیت بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار کر رکھی ہے، جو علاقے میں بجلی چوری کرے تو اُس کی چوری کا بل بھی تم کو ادا کرنا پڑے۔ جماعت اسلامی نے ہر عدالت میں جا کر بجلی کا مقدمہ لڑا مگر افسوس ہوتا ہے قوم کے لیے کسی ادارے کے پاس انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بس 90 دن میں الیکشن کا مطالبہ سب کررہے ہیں۔ ارے الیکشن میں اگر تم ان چوروں کو دوبارہ لے کر آئے تو پھر روز جنازے ہی اٹھیں گے۔ میری قوم سے اپیل ہے کہ ایک موقع اقتدار کا جماعت اسلامی کو بھی دے کر دیکھ لو۔
اگر آئین پاکستان کو دیکھا جائے تو بجلی کے بلوں میں عائد کیے گئے غیر منصفانہ ٹیکس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ آئین پاکستان کی دفعہ 3 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ بقول حامد میر پرائیویٹ اسکول اور یونیورسٹی میں وصول کرنے والی بھاری فیسیں آئین پاکستان کی دفعہ 25 اے اور 37 کی خلاف ورزی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں اس پر عمل ہورہا ہے۔ آئین کی دفعہ 3 میں کہا گیا ہے کہ ریاست استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ کرے گی۔ اور ہر کسی کو اس کی محنت کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا، مگر ہمارے ملک میں اس کے برعکس کام ہورہا ہے۔ ملک میں ٹھیکے داری نظام چل رہا ہے، ہر سرکاری ادارے میں بھی 2 طرح کا اسٹاف ہے، بینکوں میں بھی یہی حال ہے، 25 ہزار میں خون چوسا جاتا ہے، سندھ حکومت کا ایک ادارہ (STAVTA) ہے جس کے ملازمین کی پنشن نہیں ہے۔ اس میں ایک (IMC) کا اسٹاف ہے جن کی تنخواہ 10 سے 15 ہزار ہے، صبح 9 بجے سے 5 بجے کا ڈیوتی ٹائم ہے۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کے IMC کے اسٹاف کو (STAVTA) کے ملازمین کے مساوی تنخواہ دی جائے اور اُن کو ریگولر کردیا جائے۔ سیکورٹی گارڈ کی تنخواہ 12 سے 18 ہزار، یہ کون سا قانون ہے۔
آئین کی دفعہ 25 کے مطابق تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ ہمارے ملک میں قانون مراعات یافتہ طبقے کے اشارے پر چلتا ہے، آج سابق وزیراعظم پر 120 مقدمات بنادیے ہیں کیا یہ مقدمات آئین کے مطابق ہیں، ماضی میں الطاف حسین کے خلاف بھی ریاست نے یہ کام کیا تھا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، کیا ہم فلاحی ریاست بن سکتے ہیں۔ میں کہتا ہوں ہاں اگر ہم اپنے ملک کو ایمانداری سے آئین پاکستان کی ہر شق کے مطابق چلائیں تو ایسا ممکن ہے۔ ہم ایک بیوہ جس کا کوئی سہارا نہیں ہوتا اس کو زکوٰۃ کے 2 ہزار یا بے نظیر انکم سپورٹ کے 3 ہزار دے کر سمجھتے ہیں کہ یہ بڑا کام ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بیوہ تعلیم یافتہ ہو اسے سرکاری ادارے میں ملازمت دی جائے، مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ ہم تو نوکری بھی سیاسی بنیاد پر دیتے ہیں اور ان کو فروخت بھی کرتے ہیں۔ معاشرتی ناہمواری کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ سابق وزیر خورشید شاہ کیا تھے ایک کلرک، آج آپ کا شمار ارب پتی لوگوں میں ہے، ایسے لوگ پیپلز پارٹی، متحدہ اور مسلم لیگ (ن) میں بھرے پڑے ہیں، مراعات یافتہ طبقوں نے آئین کو غیر موثر کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ بجلی کا بحران ملک میں کوئی بڑا انقلاب لے کر آسکتا ہے کیونکہ ہر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے۔