نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے، چیف جسٹس

234

اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے۔

نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے، بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصورعلی شاہ بھی شامل ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دینے شروع کیے تو چیف جسٹس پاکستان نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ خواجہ حارث صاحب اجازت ہو تو مخدوم علی خان سے ایک بات پوچھ لوں؟۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، باہمی قانونی تعاون کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی۔ 

آپ نے کل کہا تھا کہ باہمی قانونی تعاون کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔

دوران سماعت نیب ترامیم کے بعد ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی گئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے ایڈیٹڈ رپورٹ جمع کرا دی ہے؟، نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی نیب نے رپورٹ دے دی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایف بی آر کے بیرون ملک سے حاصل کردہ ریکارڈ عدالت میں قابل قبول شواہد کے طور پر پیش نہیں کیے جا سکتے، کیا آئین پاکستان میں شکایت کنندہ کے حقوق درج ہیں؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آئین میں صرف ملزم کے حقوق اور فیئر ٹرائل کے بارے میں درج ہے، آئین پاکستان شکایت کنندہ کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ایف بی آر کو بیرون ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہو جاتی ہیں۔