لگتا ہے اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا سنجیدہ جرم نہیں رہا،چیف جسٹس

249

اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریماکس میں کہا ہے کہ لگتا ہے کہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا سنجیدہ جرم نہیں رہا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ کا حصہ ہیں،دورانِ سماعت وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے حمید الرحمن چوہدری کی کتاب کا حوالہ دیا،جس پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے لیے یہ کیس معلوماتی بھی ہے۔

دلائل جاری رکھتے ہوئے وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حمید الرحمن چوہدری مشرقی پاکستان کے سیاستدان تھے جنہوں نے اپنے ٹرائل کی کہانی لکھی، نیب ترامیم کے ماضی کے اطلاق سے متعلق سوال کیا گیا تھا، قانون سازی میں ترمیم سے قانون بدل جانے پر سپریم کورٹ نے ہمیشہ قانون کی حمایت کی، ریاست کے ماضی کے اطلاق سے متعلق بنائے گئے قوانین آرٹیکل 12کے تحت ہیں، آئینی منشا بالکل واضح ہے، قانون سازی کے ماضی کے اطلاق کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں ہے، جسٹس منیب نے ہائی کورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ماضی سے اطلاق کیے گئے قوانین کالعدم قرار نہیں دیے جا سکتے، کسٹم ایکٹ کے سیکشن 31کا اطلاق ماضی سے کیا گیا اور سپریم کورٹ نے اس کی توثیق کی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا یہ نکتہ سمجھ چکے ہیں، ایمنسٹی اسکیم کو نیب آرڈیننس سے استثنی کیوں دیا گیا ہے؟ عدالت کو اب بے نامی دار سے متعلق نیب ترامیم پر دلائل دیں، بے نامی دار ریفرنسز میں بنیادی کیس آمدن سے زائد اثاثہ جات کا تھا۔

نیب ترمخدوم علی خان نے کہا کہ برطانیہ میں غداری پر سزائے موت ختم کی جا چکی ہے لیکن اس سے غداری کم سنگین جرم نہیں بن گیا، قانون کی سختی کم کرنے کا مطلب مجرموں کی حوصلہ افزائی کرنا نہیں ہوتا، مختلف ادوار میں جرائم سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقہ کار اپنایا جا سکتا ہے، 50کروڑ روپے کی حد اس لیے مقرر کی گئی کیونکہ مختلف عدالتوں کی آبزرویشنز تھیں، نیب میگا کرپشن کیسز کے لیے بنایا گیا تھا۔