اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیے کہ نیب قانون کے ذریعے سیاسی انتقام کاسلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے 50 کروڑ سے کم کرپشن کے مقدمات واپس لے لیے،کس قانون کے تحت یہ تفریق بنائی گئی ہے؟ اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پاکستان میں احتساب کے نظام کا محافظ نیب ہے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ احتساب کے قوانین میں سب سے سخت قانون نیب کا ہی ہے، نیب کے دائرے سے نکلنے والیکسی اورقانون کے تحت احتساب کے عمل میں شامل ہوں گے، کیا 50 کروڑ کی حد اس لیے مقررکی گئی کہ بڑی مچھلی کو پکڑا جائے؟ کیا 50 کروڑ سے کم کی کرپشن کرنے والوں کی عزت افزائی کی جارہی ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ٹرائل کی رفتاربہت سست ہوتی ہے، نیب ترامیم 2022 میں انکوائری کے وقت ملزم کی گرفتاری کو نکالا گیا، جولائی2023 میں نیب قانون میں دوبارہ انکوائری سطح پرگرفتاری کوشامل کیا گیا، نیب کیسز میں انکوائری کی سطح پرگرفتاری کے نقص کونکال کردوبارہ شامل کیا گیا، انکوائری سطح پرگرفتاری نیب کی گرفت اور سیاستدانوں کیگردگھیرا تنگ کرنے کے لیے کی گئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب قانون کے ذریعے سیاسی انتقام کاسلسلہ ختم ہوناچاہیے۔