ملتی جلتی کہانی

761

ملک کا خزانہ خالی ہے، یہ راگ سنتے اور سوگ مناتے کئی عشرے گزر گئے، حکمرانوں میں سے ہر اک نے جانے والے کو لعن طعن کرکے اس کا ذمے دار قرار دیا اور خود بھی جاتے جاتے خزانے میں قرض کے انبار چھوڑ گیا۔ یہ خزانہ خالی کیوں ہوتا ہے، بھرتا کیوں نہیں۔ ذرا یہ قصہ پڑھ لیجیے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ وراثت میں ملی حکمرانی کا بادشاہ ایک دن پاگل خانے جا پہنچا وہاں معائنے کے بعد اُس نے پاگل خانے کے مہتمم سے دریافت کیا کہ آپ کیسے ٹیسٹ کرتے ہو کہ پاگل اب پاگل نہیں رہا اور ٹھیک ہوگیا وہ معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔ مہتمم ان کو ایک حوض کی طرف لے گیا اور کہا کہ ہم ٹھیک ہونے اور سمجھے جانے والے پاگل کو نلکا چلا کر اس حوض کے پانی سے بھرنے کو کہتے ہیں اگر وہ حوض بھر دے تو ٹھیک قرار دے کر چھٹی کردیتے ہیں۔ بادشاہ نے بھی کچھ دیر حوض بھر کے اور حکومت کا اہل قرار دینے کے لیے عقل کل ثابت کرنے کے لیے کچھ دیر زور آزمائی کی اور پھر شرمندہ ہو کر کہنے لگا کہ گرمی بہت ہے پھر سہی اگر موقع ملا تو کہہ کر جھینپ مٹائی۔ مگر یہ تو بتائو بھلا حوض میں اتنی دیر کی سعی کے باوجود پانی ٹھیرا کیوں نہیں یہ راز کیا ہے تو مودب مہتمم نے بتایا سرکار حوض بھرنے کا پائپ ایک انچ کا ہے اور پانی نکلنے کے لیے زیریں کئی پائپ اس سے موٹے سائز کے لگے ہوئے ہیں۔ ان اخراج کے پائپ کے وال کو بند کرکے جو پاگل حوض بھرنے کی سعی کرتا ہے وہ کامیاب ٹھیرتا ہے۔ بادشاہ لاجواب ٹھیرا۔ اور پھر وہ وہاں ٹھیرا بھی نہیں کہ اس کی عقل کسوٹی پر کھوٹی ٹھیری۔

سو بات اس سے ملتی جلتی مملکت خداداد پاکستان کی ہے کہ خزانہ عالمی اداروں، دوستوں اور بینکوں سے مانگے تانگے کی بھاری رقم ملنے کے بعد بھی ماتم ہے کہ اب بھی خزانہ خالی ہے اور حکمران کا بھرم بھاری اور پٹارہ خالی کا آشکار ہے۔ خزانہ گیا کہاں یہ کوئی پوشیدہ گتھی نہیں۔ بس تھوڑی سی عقل درکار ہے مگر یہاں تو سب عالم آشکار ہے۔ مگر ایک قصہ اور قارئین کو پڑھا دیتے ہیں۔ ایک عورت غسل کررہی تھی اس نے گلے کا ہار اتار کر رکھا تو ایک پرندہ اس کو لے اڑا۔ وہ بادشاہ سلامت کے پاس ہار کی بازیابی کے لیے فریادی ہوئی۔ بادشاہ نے اعلان کرایا کہ جو شخص دیکھتے ہی دیکھتے امیر ہوگیا اس کو حاضر خدمت کیا جائے تو ایک شخص جاڈھونڈا۔ جو راتوں رات امیر ہوگیا تھا۔ اس کو بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تمہاری اس امارت کا راز کیا ہے تو اس نے بتایا کہ یوں ایک پرندہ آیا اور یہ ہار وہ گرا کر چلا گیا۔ میں نے اڑوس پڑوس سے پوچھا مگر مالک کا پتا نہ چلا سکا تو میں نے عطیہ خداوندی سمجھ کر اس کو فروخت کرکے زندگی کو پرآسائش بنالیا۔ بادشاہ نے سنار سے ہار لوٹایا اور سنار کو رقم اس شخص کے مال و اسباب سے لوٹائی۔ اور عورت کو اس کا ہار دے دیا۔ اس دور میں نہ نیب تھا نہ ایف آئی اے بس للہیت تھی۔ خوف خدا تھا جوابدہی کا احساس تھا، خزانہ قوم کی امانت تھا، وہ امانت میں خیانت کو منافقت کی کڑی سمجھتے، وہ اس سوچ کے حامل نہ تھے کہ لوٹ لو، پھر سرکار کے مجرم پر یا لوٹ کے مال پر حج و عمرہ کرکے گناہ بخشوا لو۔ خزانہ بھرنا ہے تو عقل سلیم کو بھی کام میں لانا ہوگا۔ سب سوتے اخراج کے بند کرنے ہوں گے اور جو دیکھتے ہی دیکھتے امیر ہوگئے ان سے واپسی بزور کرنی ہوگی اور عبرت کدہ بنانا ہوگا۔ جب بات بنے گی ورنہ بدھو کی حکمرانی سے کام نہ چلے گا۔ بات ہے سمجھ کی۔

بڑے بوڑھے بتاتے، سمجھاتے آئے ہیں کہ ’’آمدنی ہو دس، خرچ ہو بیس تو زمانہ اس کو دیتا پیس‘‘، بس ہمارے ہاں خرابی کی جڑ یہ بھی رہی ہے۔ مفلوک حال مملکت کی کابینہ، وزرا، مشیروں کی بھاری بھرکم تعداد بھی خزانہ کی کمر توڑتی رہی، مگر حکمراں وقت چاہتے نہ چاہتے اس بھرتی کو برقرار رکھنے پر مجبور تھے، کیوں کہ جمہوریت گنتی کا کھیل ہے، وہ الٹ پلٹ ہوجائے تو تختہ اوندھا ہوجاتا ہے۔ سو بندھن کو برقرار رکھنے کے لیے یہ کچھ تو کرنا ہوتا ہے۔ اور پھر حکمران وقت بھی جس کروفر سے رہتے ہیں اس کو اقتداری پروٹوکول کا لازمی جز سمجھتے ہیں۔ چارٹرڈ طیارہ ہو تو ساتھ طرح انواع کے کھانے بھی سادگی ان کی طبیعت کو موافق نہیں آتی۔ سیدنا عمرؓ نے خوب کہا کہ ہمیں اللہ نے عزت دی ہے ایمان کی وجہ سے لباس سے نہیں اور یوں 17 پیوند کے لباس سے آراستہ خلیفہ دوم نے بیت المقدس کی فتح کی چابی حاصل کرکے بغیر خون خرابہ کیے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔

اسلام میں تو وظیفہ افراد کے حساب سے مقرر ہوتا یہاں طبقہ کے حساب سے اور طبقاتی تقسیم بھی شرمناک ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بتایا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کی ماہانہ تنخواہ 25 لاکھ روپے، سالانہ دس فی صد اضافہ، 2 گاڑیاں، سجا ہوا مکان، پٹرول 1200 لیٹر، ڈرائیور، 4 گھریلو ملازم، بجلی، گیس، پانی، جنریٹر کے لیے ایندھن مفت، بچوں کے اسکول کا خرچ 75 فی صد مفت۔ ایم ڈی SSGP تنخواہ ماہانہ 68 لاکھ روپے، چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ ماہانہ 17 لاکھ روپے۔ نیب چیئرمین ریٹائرڈ جرنیل کی مراعات، تنخواہ ماہانہ 17 لاکھ روپے، سرکاری رہائش، دو گاڑیاں، 2000 یونٹ بجلی فری، 600 لٹر پٹرول مفت، خیر سے ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں مفت پٹرول استعمال کررہی ہیں۔ یہ شاہانہ اور اللے تللے کے خرچ اس غریب پسماندہ مملکت پر، کیا زمانہ میں پنپنے کی یہ باتیں ہیں، آخر کی بات کڑا احتساب بھی ضروری ہے اس کی شاندار مثال سیدنا عمرؓ کے دور حکمرانی کی ہے۔ آپ نے ایک کو زکوٰۃ عشر جمع کرانے کے لیے ایک علاقہ کی طرف بھیجا جب وہ زکوٰۃ عشر کا مال لے کر حاضر ہوا تو کچھ تو مال بیت المال کے حوالے کیا اور کچھ یہ کہہ کر اپنے پاس رکھ لیا کہ یہ تو مجھے تحفہ میں لوگوں نے دیا ہے۔ سیدنا عمرؓ تک یہ بات پہنچی آپ نے اُسے طلب کرکے وضاحت طلب کی اور تاریخی محاسبہ کیا کہ تجھے یہ تحائف عاملین زکوٰۃ بنانے سے قبل بھی کبھی ملے ہیں۔ یہ تحائف کے زمرے میں وصول بھی بیت المال میں جمع کرائو اور بیت المال کی بکریاں چرائو۔ یہی کفارہ ہے۔ ہمارے ملک میں تو توشہ خانہ مال غنیم بنایا ہوا ہے حکمرانوں نے، پھر کیسے حالات معاشی ملک کے سدھریں گے۔

قصہ چار بھی پڑھ لیں یہ چار درویشوں سے ملتے جلتے سبق آزما قصے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی ملک کا دستور تھا کہ بادشاہ کا انتقال ہوجاتا تو شہر کے در پر جو پہلا شخص پہنچتا بادشاہ بنادیا جاتا۔ اتفاقاً بادشاہ کا انتقال ہوگیا جب صبح سویرے شہر کا دروازہ کھولا گیا تو ایک کاسہ لیس فقیر دروازہ پر موجود سوالی تھا وہ اللہ کے نام پر لوگوں کے آگے بڑھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بینڈ باجوں سے استقبال کرکے تخت پر بٹھادیا وزرا نے درباریوں نے، فوج کے اہلکاروں نے سلامی دی مولویوں نے عمر درازی کی دعا کی، شہریوں نے گیت گائے، بادشاہ جئے ہزار سال، فقیر نے آئو بھگت دیکھی تو حلوہ کھانے کی برسوں سے دبی خواہش نے سر ابھارا کہ یہ پوری کرے اس نے حلوہ اور نائو نوش کا سامان طلب کیا اور خوب عیش و عشرت میں ڈوب کر بادشاہی کرتا رہا۔ راوی عیش ہی عیش لکھتا رہا۔ پھر وہ مرحلہ آگیا کہ ستاروں کی چال الٹ گئی۔ بدقسمتی نے سر ابھارا پڑوسی ملک نے حملہ کردیا، فوج کے جنرل بھاگے آئے کہ حضور کمان کیجیے۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت ہے فقیر نے کہا کہ یارو وہ میرے کپڑے اور کاسہ فقیری لائو۔ جو پہن کر آیا تھا وہ توشہ خانہ سے لا کر دیے گئے۔ فقیر نے لباس تبدیل کیا، کاسہ پکڑا اور کاسہ ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ میں تو نسل در نسل فقیر تھا، تم لوگوں نے مجھے تخت پر لا بٹھایا اور بادشاہ بنادیا۔ میرا کام تو بھیک مانگنا تھا اور مال سمیٹنا تھا، حلوہ پوری کھانا تھا، ہم چلے اپنی کٹیا میں تم جائو۔ تمہاری مملکت ہم ذرا سستا لیں گے اور پھر پرانے دھندے میں جت جائیں گے۔ ہمارے ملک کی حکمرانی کی کہانی اس سے مماثلت رکھتی ہے تو اتفاق ہے، مگر بات تو اس سے ملتی جلتی ہے۔ چلیں ان ہی قصوں پر اکتفا کریں ایسی داستانیں ہر سو بکھری ہوئی ہیں۔