پاکستان میں اگست میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آئینی طور پر 90 روز میں انتخابات کرانے کی پابندی ہے لیکن جانے والی پی ڈی ایم اور ان کے سرپرستوں نے آخری دنوں میں متنازع مردم شماری کی منظوری دے کر نئی مشکل پیدا کردی۔ اب آئینی بحران کھڑا ہے کہ آئین کی کون سی شق پر عمل کیا جائے۔ 90 روز میں انتخاب یا نئی حلقہ بندیاں۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستانی حکمران آئین کے احترام کی باتیں اس طرح کررہے ہیں جیسے ہمیشہ آئین پر مکمل عمل کیا اور اس کا ہمیشہ احترام کیا ہو۔ اس ہنگامے میں ایک خبر یہ پہلے بھی آچکی ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ نے فروری سے آگے الیکشن لے جانے پر اعتراض کیا تھا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی والے بھی ایسے ہی بیانات دے رہے ہیں کہ فروری میں الیکشن کرادیے جائیں۔ کوئی کوئی رہنما ایک سال یا دس ماہ کی بات بھی کرتا رہا ہے۔ لیکن اب مغربی ممالک کی جانب سے دھمکی کے نام پر فروری تک انتخابات نہ کرانے کی سند دے دی گئی ہے۔ ان ممالک نے پاکستان کو فروری سے آگے انتخابات لے جانے پر سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مغربی ممالک کو یہ اختیار کس نے دیا کہ پاکستان کو انتخابات 90 دن سے زیادہ مدت میں کرانے کی اجازت دے دیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ پاکستان کے حالات کیسے ہوتے ہیں اور کیا رُخ اختیار کرتے ہیں، لیکن مغربی ممالک اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ ویسے مغربی ممالک کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملے میں بھی بڑے محتاط واقع ہوئے ہیں۔ معاملہ مسلمانوں کا ہو تو وہ برما، بھارت اور بنگلادیش یا اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے اور اگر پاکستان یا کسی مسلم ملک میں غیر مسلم، خصوصاً مسیحیوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہوجائے یا مسیحی کوئی شرارت کریں تو پورا مغرب، انسانی
حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ تک کے پیٹ میں مروڑ ہونے لگتا ہے۔
ان مغربی ممالک سے درخواست ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کتنے انتخابات کرائے، ذرا اس کا جائزہ لیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو کتنے عرصے سے غزہ میں محصور کررکھا ہے، بھارت میں مساجد اور چرچ جلانے پر کبھی سنگین نتائج کی دھمکی نہیں دی گئی۔ یہ ممالک مقبوضہ کشمیر کے شہریوں پر پنڈتوں کو مسلط کرنے پر بھارت کے سامنے چوں بھی نہیں کرتے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ یہ بھارت سے ڈرتے ہیں یا ان کا کوئی نقصان ہوجائے گا بلکہ مسلمانوں کے معاملے میں ’’الکفر ملت واحدہ‘‘ کے عنوان سے یہ سب ایک ہیں۔ ان کو کسی چیز کی شرم نہیں ہوتی، سویڈن، ڈنمارک، ہالینڈ وغیرہ میں آزادی اظہار کے نام پر قرآن کی بے حرمتی، اس کو جلانے اور پھاڑنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور ہولوکاسٹ پر زبان کھولنے کو جرم قرار دیتے ہیں۔ انہیں پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق وغیرہ سے کیا تعلق۔ یہ بیان دینا ہی پاکستان کے معاملات میں کھلی مداخلت ہے کہ پاکستان میں کب الیکشن ہونے چاہئیں اور کب نہیں، اس پر پاکستانی حکومت کو خود ایکشن لینا چاہیے۔ لیکن جب آئی ایم ایف والے پاکستان میں الیکشن کے بارے میں ہدایات جاری کرسکتے ہیں اور قرضے بھی تین قسطوں میں دے سکتے ہیں تو پاکستان کے انتخابات کے التوا کی سند بھی یہی ممالک دے سکتے ہیں۔ اور انہوں نے ایک اعتبار سے سند دے ہی دی ہے کہ الیکشن نومبر میں نہیں فروری میں کرائے جائیں۔ اگر ایسا ہے تو کچھ دنوں میں کوئی اور بیان آئے گا کہ الیکشن اگست کے بعد نہ کرائے جائیں۔ ایسے میں ہمارے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کہاں کھڑے ہوں گے جو جاں بہ لب عوام کے بارے میں کہتے ہیں کہ مینڈیٹ کے اندر رہوں گا۔ حکومت کا مینڈیٹ الیکشن کرانا ہو، پانچ سال حکمرانی کرنا ہو یا آئین بنانا یا اور کوئی کام اس کی بنیادی ذمے داری عوام کی فلاح ہے، ایک دن کی حکومت ہو، تین ماہ کی یا سال بھر اور پانچ سال کی ان کا ایک لمحہ بھی عوام کی فلاح کے بغیر نہیں گزرنا چاہیے۔ یہاں بجلی کے بلوں کے مسئلے پر لوگ لڑنے مرنے پر تُل گئے ہیں اور نگراں وزیراعظم مینڈیٹ کا منجن بیچ رہے ہیں۔
جس طرح لوگ بجلی کے بلوں کے مسئلے پر سڑکوں پر ہیں اور احتجاج کررہے ہیں اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور حکومت تادم تحریر کوئی فیصلہ ہی نہیں کرسکی کہ اس پر کوئی تبصرہ کیا جاسکے کہ وہ درست فیصلہ ہے یا غلط۔ ایسے میں عوام کو ریلیف کون دلائے گا۔ جس انداز میں عوامی غضب بڑھ رہا ہے اور جان بوجھ کر انہیں بھڑکایا جارہا ہے، طرح طرح کے شوشے چھوڑے جارہے ہیں، بجلی کے کنکشن کاٹنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، اس سے تو لگتا ہے کہ کہیں سے یہ سارا عمل کنٹرول کیا جارہا ہے اور اتنے ہنگامے کرادیے جائیں کہ مزید شہری آزادیاں سلب کرنے کے لیے ایمرجنسی قسم کے قوانین مسلط کردیے جائیں۔
مغربی ممالک پاکستان کے انتخابات کے بارے میں ضرور رائے دیں لیکن پہلے اپنے ممالک میں بھی مسلمانوں سمیت تمام غیر مذہب والوں کے حقوق کا احترام تو یقینی بنائیں۔ کہیں عبایا پہننے پر پابندی، کہیں ڈاڑھی رکھنے پر ہنگامہ، ہندوستان میں گوشت کھانے پر قتل، مسلمان ہونے پر مار پیٹ، ان سب باتوں پر بھی تو ان کی آواز سنائی دے لیکن ان معاملات میں یہ خاموش رہتے ہیں اور پاکستان کے غیر آئینی اقدامات کو سند جواز بخش رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کا حکمران طبقہ ہے جو عام آدمی کے طرزِ ندگی سے بالکل ناواقف ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہے کہ دو وقت کی روٹی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس مہنگائی میں زندہ رہنا کیسے ممکن ہے تو پھر یہ عوام کے لیے کون سا ریلیف پیکیج لائیں گے۔ نگراں حکومت کئی روز سے نوٹس لینے اور اعداد و شمار جمع کرنے میں لگی ہوئی ہے حالاں کہ بجلی کے معاملے میں سارا مراعات یافتہ طبقہ اس کے اردگرد موجود ہے لیکن مجال ہے کہ کوئی قدم اٹھالیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ کچھ رقم کم کردی جائے گی اور پورے ملک کی مجموعی رقم کا اعلان کرکے کہا جائے گا کہ عوام کو بجلی کی مد میں اتنے ارب روپے کی سبسڈی یا رعایت دے دی گئی۔ گویا پانچ کروڑ لوگوں کے بلوں پر صرف تین سو روپے کم کیے جائیں تو یہ رقم اربوں کھربوں میں نظر آئے گی۔ جبکہ بجلی صارف کو ہزاروں بلکہ ہزارہا روپے کے بل بھرنے ہوتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ جعلی ٹیکس، زبردستی کے سرچارج ختم کیے جائیں۔ بجلی پیدا نہ کرنے پر نجی پاور کمپنیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ لیکن ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا جارہا۔ آنے والے دن مزید عقدے کھولیں گے کہ کون سا واقعہ کس مقصد کے لیے ہوتا ہے یا کرایا جاتا ہے۔