اے ابن آدم آج کی اپنی نسل کو جب نشے کی حالت میں دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اب یہ نشہ درس گاہوں میں پہنچ چکا ہے۔ ہیروئن، چرس، صمد بانڈ کے بعد آئس کے نام سے ایک مہنگا نشہ بھی ہمارے ملک میں آچکا ہے۔ بڑے لوگوں کے بچے اس لعنت میں تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں۔ میرے ایک دوست کا جوان بیٹا ابھی چند ماہ پہلے اس آئس کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلا گیا، پولیس کی موجودگی پوش علاقوں میں آئس کا نشہ اپنے عروج پر ہے۔ گٹکا، ماوا، مین پوری تو غریب لوگ کھاتے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان میں برسوں سے پان کھایا جاتا ہے میں خود بھی پان کا شوق رکھتا ہوں۔ یوپی سے آئے ہوئے ہر گھر میں پان دان نظر آتا تھا۔ مولانا مودودیؒ صاحب کے صاحبزادے فاروق حیدر مودودی نے مجھے اچھرہ لاہور جب میں مودودیؒ صاحب کی قبر پر دعا کرنے گیا تو ان سے بھی ملاقات ہوئی جو تمباکو کا پان انہوں نے مجھے کھلایا تھا وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ پان کے اگر نقصان ہیں تو فائدے بھی ہیں۔ خیر اب تو عوام نے پان کم کردیا اور زہر قاتل گٹکا، ماوا اور مین پوری کا کثرت سے استعمال شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے منہ کا کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ کاروبار بھی پولیس کی سرپرستی میں پھل پھول رہا ہے۔ گھروں کے کفیل اللہ کو پیارے ہورہے ہیں، پولیس کی پیدا گیری اپنے عروج پر ہے، کراچی میں پان چھالیہ والوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے جبکہ یہ کاروبار 75 سال سے چل رہا ہے۔ اس وقت پان چھالیہ فروخت کرنے والوں کے کاروبار تباہ ہوگئے ہیں جہاں سے ہول سیل ریٹ پر چھالیہ فروخت ہوتی ہے وہ ہے جوڑیا بازار۔ پولیس وہاں پر کبھی چھاپا نہیں مارتی، کل کی بات ہے میں نے 2 پولیس والوں کو دیکھا انہوں نے ایک ٹرک پکڑا ہوا تھا جس پر کم از کم چھالیہ کے 40 کٹے لوڈ تھے۔ میری اطلاع کے مطابق ایک کٹے میں 35 کلو چھالیہ ہوتی ہے پورا سامان پولیس پکڑ کر تھانے لے گئی بعد میں بھاری رشوت لے کر ملزمان کو چھوڑ دیا اور گٹکا بنانے والوں کو وہ چھالیہ مارکیٹ ریٹ سے کم میں فروخت کردی۔ اس کے علاوہ ایک رپورٹ اور ملی کہ گٹکا بنانے والی فیکٹری پر جب چھاپا مارا جاتا ہے تو اُس کا سارا سازوسامان تھانے میں لایا جاتا ہے اور جو مال تیار ہوتا ہے وہ ہماری پولیس اُن لوگوں کو 50 روپے فی پیکٹ کے حساب سے فروخت کردیتی ہے۔ جو لوگ گھروں سے چوری چھپے گٹکا فروخت کرتے ہیں اس کاروبار میں خواتین بھی شامل ہوچکی ہیں۔ نیو کراچی 5G میں ایک بے حد پرانی پان چھالیہ کی دکان پر پولیس نے چھاپا مار دیا جہاں سے اس کو 8 کلو چھالیہ ملی، دکان کے پیچھے دکان دار کا گھر واقع ہے، پان چھالیہ کا ان کا یہ کاروبار ان کے باپ دادا کے زمانے سے چل رہا ہے، کبھی کوئی غلط چیز فروخت نہیں کی مگر چھالیہ جس کے بغیر وہ پان اور تمباکو فروخت نہیں کرسکتے وہ ایک جرم بن گیا۔
ابن آدم کہتا ہے کہ اس کاروبار سے جو لوگ وابستہ ہیں ان کے لیے ایک قانون بنایا جائے، ہر دکان پر چھالیہ کی ایک مقدار رکھنے کی اجازت ہو، 5 کلو یا 10 کلو جو وہ صرف پان فروخت کرنے والے کو دے سکتا ہو اگر وہ گٹکا بنانے والوں کو چھالیہ فروخت کرتا پایا جائے تو اس کو گرفتار، سزا، جرمانہ ہونا چاہیے اور اگر دوبارہ وہ اسی کام میں ملوث پایا جائے تو اس کی دکان سیل کردی جائے۔ اگر ہماری پولیس ایماندار ہوجائے اور عدالتوں سے ان عناصر کو سزا ملے تو یہ زہر قاتل کاروبار بند ہوسکتا ہے۔ شہر میں صرف پان کھانے کی اجازت ہونی چاہیے اور ایک مشورہ پان کھانے والوں کے لیے کہ وہ شہر کو گندا نہ کریں جگہ جگہ پان کو نہ تھوکا جائے جو شخص پان تھوکتا ہوا نظر آئے اُس پر بھاری جرمانہ لگایا جائے، اب بہت ہوچکا ہمارا معاشرہ تباہ ہورہا ہے، نسلیں برباد ہورہی ہیں اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو قبرستان چھوڑ کر آتے رہیں گے۔
ایک خبر میری نظروں سے آج گزری جس کی ہیڈلائن یہ تھی ’’ملک بھر میں 8.9 ملین لوگ نشے کے عادی ہیں روزانہ 700 افراد منشیات کی پیدا شدہ پیچیدگیوں کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں‘‘۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج وسطی جاوید احمد کیریو نے دوران سماعت کہا کہ ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں 700 افراد نشے سے مرتے ہیں یہ شرح دہشت گردی کے باعث مرنے والوں سے زیادہ ہے۔ 15 سال سے 64 سال کی عمر کے تین ملین سے زائد پاکستانی باقاعدگی سے ہیروئن استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں منشیات کی فروخت کی مکمل پشت پناہی ملک کے طاقتور اور امیر افراد کی جانب سے کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پولیس اور ڈرگ مافیا کی ملی بھگت ہے۔ غیر قانونی ڈرگ پاکستان میں باآسانی اور سستی دستیاب ہے جس کی وجہ سے 8.9 ملین تک افراد نشے کے عادی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں صحت مندانہ سرگرمیاں زیرو لیول پر پہنچ کر ختم ہوگئی ہیں۔ جج صاحب کا یہ بیان پڑھ کر خوشی محسوس ہوئی، کاش ایسے افراد کو سزائیں بھی ہوں تو معاشرے سے اس لعنت کا خاتمہ ہو، کاش میرے نوجوانوں تم نشے کے بجائے نماز اور قرآن کو اپنا سکون بنالو تو ہمارے معاشرے سے اس لعنت کا کافی حد تک خاتمہ ہوسکتا ہے۔