دست ِ داور

701

بادشاہت اور جمہوریت میں ایک واضح اور نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ بادشاہت شاہی خاندان کی وراثت ہوتی ہے مگر جمہوریت میں اقتدار عوام کی وراثت ہوتا ہے جو عوام کے ذریعے سیاستدانوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے المیہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کے چہرے پر کئی چہرے چڑھے ہوتے ہیں جو عوام کو سولی پر چڑھائے رکھتے ہیں، بادشاہت میں عوام شاہی خاندان کی عشرت گاہوں کو آباد رکھتے ہیں مگر جمہوریت میں سیکڑوں خاندانوں کی پرورش کرنا پڑتی ہے، بادشاہت میں عوام شاہی خاندان کے خدمت گزار ہوتے ہیں، جمہوریت میں حکمران طبقہ عوام کا خادم ہوتا ہے لیکن جب حکمران عوام کو خادم سمجھنے لگیں تو عوام اچھوت بن جاتے ہیں اور وطن عزیز میں ایسی ہی جمہوریت ہے یہاں اقتدار عوام کی وراثت نہیں ہے حکمران طبقات کی وراثت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے، کبھی باپ کبھی بھائی، کبھی بیٹا، کبھی بیٹی، کبھی داماد۔ یوں جمہوریت بادشاہت کی بد ترین مثال بن گئی ہے اور اب تو نواسے اور نواسیوں کو بھی اس قطار میں شامل کرنے کی جدوجہد ہو رہی ہے جو کہ ایک بد ترین سازش ہے، حکومت کسی بھی جماعت کی ہو عوام کی معاشیات اور سماجیات پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کی معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی رہتی ہے کیونکہ حکمران طبقہ ملک کے تمام وسائل پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے۔

مولانا عبدالحق ہاشمی نے درست کہا ہے کہ حکمران اور اسٹیبلشمنٹ نے قوم کو حالات اور اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، حکمران اپنی عشرت گاہوں میں بیٹھے بیان بازی میں مصروف رہتے ہیں، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ مشغول رہتے ہیں کیونکہ بیان بازی ان کا مشغلہ ہے، اس تناظر میں ملک و قوم کو ان کے چنگل سے نکالنا جہاد فی سبیل اللہ ہے مسلمان ہونے کے ناتے جہاد ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کے معاملے میں سودے بازی کفر ہے، بد نصیبی یہی ہے کہ حکمران طبقہ اس کفر کو سیاست کہتا ہے، یہ کیسا المیہ ہے کہ پچھتر برسوں سے طرزِ حکمرانی کے تجربات کیے جارہے ہیں، کبھی ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے کیے جاتے ہیں، کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔

نیا پاکستان بنانے، حقیقی پاکستان اور حقیقی آزادی کے دعوے کرنے والوں کو بھی بارہا آزمایا گیا ہے مگر تمام تجربات ہی ناکام ہوئے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عالم ِ رنگ و بو میں آیا مگر اس کے رنگ و بو پر لادینیت کا رنگ چڑھا دیا گیا قوم کے دکھوں کا مداوا صرف اور صرف اسلامی نظام کے نفاذ ہی میں ہے جس کے لیے جدوجہد قوم کا اولین فرض ہے۔

مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کا مقصد حصول اقتدار نہیں ہمارا مقصد انسان اور معاشرے کر بدلنا ہے، جب تک معاشرہ نہیں بدلتا اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہیں، جماعت اسلامی ایسی قوم کی تشکیل کے لیے جدوجہد کررہی ہے جو دنیا کی امامت کرے اور آخرت میں بھی سرخرو ہو مگر المیہ یہ ہے کہ ملکی وسائل پر حکمران اشرافیہ کا قبضہ ہے، حکمرانوں نے قوم کو صوبائیت اور فرقوں میں بانٹنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جس نے اپنوں کو غیر بنانے میں اہم کردار اداکیا ہے۔

حکمران ملک و قوم کی لڑائی لڑنے کے بجائے اقتدار کی لڑائی لڑنے میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں اگر یہ توانائی ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے صرف کی جاتی تو پاکستان بھی اقوام عالم میں سرفراز و سربلند ہوتا، جماعت اسلامی نے ہر مشکل وقت میں ملک و قوم کا ساتھ دیا ہے، یہ حقیقی معنوں میں عوامی جماعت ہے اور اس کا واحد مقصد قوم کو ملکی وسائل کا وارث بنانا ہے، جب تک حکمران طبقہ قوم کا خادم بننے میں فخر محسوس نہیں کرتا قوم اپنی وراثت سے محروم رہے گی، اقتدار قوم کی وراثت کی حیثیت رکھتا ہے جب تک قوم کو اس کی وراثت نہیں ملتی ملک معاشی طور پر بدحال اور قوم غربت و افلاس میں مبتلا رہے گی۔

سرخرو ہونے کو ایک سیلابِ خوں درکار ہے
جب بھی دریا چڑھے گا پار اتر جائیں گے لوگ
……
ہم نے مدت سے الٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دستِ داور تیرے درہم و دینار پہ خاک