امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے درست ہی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے میئر کو بھی اختیارات دینے کو تیار نہیں اور پھر جلد ہی اس کے شواہد آنے شروع ہوگئے جس کا پہلا مظاہرہ عیدالاضحی کے موقع پر نظر آیا جب آلائشیں اٹھانے کا کام (جو بلدیاتی اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے) بھی سندھ حکومت نے اپنے زیر انتظام سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ (SSWM) سے کرایا اور پھر منسٹر مرتضیٰ وہاب نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ یہ ان کی مجبوری تھی۔ دوسرا مظاہرہ یہ ہوا کہ میئر نے تو حلف 17 جون کو اٹھایا اور جاتے جاتے سابق ایڈمنسٹریٹر سیف الرحمن 14 جون ہی کو اپنے میٹروپولیٹن کمشنر شجاعت حسین سے بجٹ تیار کراکے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس کو منظور کرکے سیکرٹری بلدیات کو ارسال کرچکے تھے۔ منسٹر وہاب نے اس کا غصہ افسران پر نکالا۔ اس حوالے سے یہ بھی خبر آئی کہ حکومت سندھ کراچی سمیت تمام ٹائونز پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے بجٹ بنانے کا اختیار منتخب نمائندوں سے چھین کر ٹرانزیشن افسران کے حوالے کردیا اور یو ان کالعدم ڈسٹرکٹ کارپوریشنوں کے بجٹ ٹرانزیشن افسران سے تیار کراکے حکومت سندھ کو بھجوائے جبکہ یہ اختیار ٹائونز کونسلرز کا تھا۔
سندھ حکومت نے تیسرا وار بلدیاتی اداروں کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے سسٹم کا نفاذ کردیا۔ سسٹم کو میونسپل کمشنر چلاتا ہے جس نے بدنام زمانہ افسران کو دوبارہ سے بحال کرنا شروع کردیا۔ قیادت کے فیصلے کی وجہ سے منسٹر وہاب صاحب خاموش ہیں اور بڑھکیں مار کر گزارہ کررہے ہیں۔ چوتھا قدم حکومت سندھ نے یہ اٹھایا کہ مرتضیٰ وہاب ہیں تو میئر کراچی مگر ائرپورٹ تک محدود کردیا گیا اور ائرپورٹ سے آگے کے حلقہ جات ڈپٹی میئر سلمان مراد دیکھیں گے اس کے ساتھ ہی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے اختیارات بھی ڈپٹی میئر کو منتقل کردیے (جبکہ سندھ لوکل آرڈیننس مجریہ 2013ء کے تحت ڈپٹی میئر کو کوئی انتظامی اختیارات حاصل نہیں تھے) اور مرتضیٰ وہاب بغلیں جھانکتے ہوئے بولے ’’میں خود اس جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتا تھا، جبکہ درحقیقت سندھ حکومت سلمان مراد کو اس لیے ترجیح دے رہی ہے کہ وہ حکومت کے ہر حکم پر چپ چاپ انگوٹھا چھاپ دیں گے۔ دستخط تو مرتضیٰ وہاب بھی کردیں گے مگر پڑھ کر کہ وہ پڑھے لکھے ہیں۔ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو ہم منسٹر اس لیے کہہ رہے ہیں کہ وہ ابھی حکومت سندھ کے قانونی مشیر اور حکومتی ترجمان ہیں پھر ان کے گلے میں جو میئر کا طوق لٹکا ہے وہ بھی سلیکٹڈ کا ہے، الیکٹڈ کا نہیں ہے کہ وہ بلدیہ کراچی کے ایوان میں اکثریت سے منتخب نہیں ہوئے ہیں بلکہ حاضرین کی اکثریت سے مقرر کیے گئے ہیں۔ ڈریں اس وقت سے جب منتخب حاضرین ایوان میں حاضر ہوں گے تو وہ خود بخود ہی اقلیت میں آجائیں گے مگر پیپلز پارٹی ایسا وقت آنے سے قبل ہی کوئی چال چل جائے گی یا تو کراچی کو مزید تقسیم کرکے دوچار ضلعے بنادے گی یا پھر پی ٹی آئی کی نشستوں پر ضمنی انتخاب کراکے ایڑھی چوٹی (دھونس دھاندلی) کا زور لگا کر اکثریت حاصل کرلے گی، مگر اختیارات پھر بھی نہیں دے گی اور مرتضیٰ وہاب کو ایک منسٹر کی حیثیت سے کام کرنا پڑے گا۔ البتہ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت سندھ نے واٹر بورڈ کا اختیار میئر کو منتقل کردیا ہے جو اس معاہدے کی ایک شق ہے جو جماعت اسلامی ہی کے ایک ماہ کے دھرنے کے خاتمے پر پیپلز پارٹی نے کیا تھا۔ مرتضیٰ وہاب اس سے بہت خوش ہیں اور بڑھکیں مار رہے ہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ اب جبکہ واٹر بورڈ کا اختیار آپ کو مل گیا ہے تو آپ بلاول زرداری کو لائن سے پانی کب دے رہے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں میں یہاں آیا ہوں تو ساری اسٹیڈی کرکے آیا ہوں۔ پہلے کراچی کی تاریخ بیان کی پھر فرمانے لگے کے ایم سی میں قانون سازی کریں گے، واٹر بورڈ کی اپنی عدالت ہوگی، اپنا تھانہ ہوگا، کے ایم سی میں بھی مجسٹریٹ مقرر کیے جائیں گے جیسے پرائز کنٹرول مجسٹریٹ ہوتے ہیں۔ قانون سازی اچھی بات ہے مگر کے ایم سی کے مجسٹریٹ بھی پرائز کنٹرول جیسے مجسٹریٹ نکلے تو اللہ ہی حافظ، کیوں کہ پرائز کنٹرول مجسٹریٹ صرف پرائز لسٹ جاری کرتا ہے کنٹرول نہیں کرتا۔ مثلاً دودھ کے سرکاری نرخ 170 روپے فی لیٹر مقرر ہیں اور یہ دودھ 230 روپے میں فروخت ہورہا ہے اور پرائز کنٹرول مجسٹریٹ کمشنر کراچی کے ساتھ مل کر عوام کے دماغ کی دہی بنا رہا ہے۔ ہم مرتضیٰ وہاب کو مطلع کریں کہ کراچی میں پانی کا فقدان نہیں ہے، بات ہے نیت کی اور اس کی منصفانہ تقسیم کی، یہاں ہم ملیر اور ضلع ملیر کی بات کرتے ہیں جس طرح پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ میں کوٹا سسٹم پر عملدرآمد کراکے سندھ کو دیہی اور شہری میں تقسیم کیا تھا اسی طرح ان کے پیش رو نے ضلع ملیر کی بنیاد رکھ کر کراچی کو بھی دیہی اور شہری میں تقسیم کردیا ہے۔ سہراب گوٹھ سے بن قاسم تک جتنے بھی گوٹھ دیہات آتے ہیں وہ سب کے سب ضلع ملیر کی حدود میں ہیں اور نہیں آتی تو ملیر کی شہری آبادی وہ ضلع کورنگی میں آتی ہے۔ اب ہوتا یوں ہے کہ ضلع کورنگی کے ملیر میں پانی کا فقدان ہے اور برسہا برس سے پانی نایاب ہے۔ جبکہ ضلع ملیر کے ملیر میں پانی اس مقدار سے آتا ہے کہ وہاں سے گدھا گاڑیوں پر بڑے بڑے کین ضلع کورنگی کے ملیر میں 30 روپے سے 50 روپے فی کین فروخت ہورہے ہیں۔ جبکہ ان دونوں ملیر کے درمیان صرف ایک سڑک ہی موجود ہے۔ یہ کاروبار بڑے پیمانے پر جاری ہے ۔
جبکہ اس حلقے کے ماضی کے نمائندوں نے یہ حل نکالا کہ جگہ جگہ اپنے لوگوں سے فلٹر پلانٹ نصب کرادیے ہیں جو بورنگ کے پانی کو میٹھا کرکے فلٹر اور منزل کے نام پر 15 روپے سے 20 روپے میں فروخت کررہے ہیں اور یہ کاروبار بھی دھوم دھام سے چل رہا ہے۔ اب تیس پینتیس سال بعد جا کے قیادت تبدیل ہوئی ہے اور عوام منتظر ہیں تبدیلی کے۔ میٹھے پانی کی اس غیر منصفانہ تقسیم سے یہ بات تو ثابت ہے کہ کمی پانی کی نہیں نیت کی ہے۔ پیپلز پارٹی پورے کراچی پر حکومت تو کرنا چاہتی ہے مگر کام صرف گوٹھوں اور دیہاتوں میں۔ اس طرح مرتضیٰ وہاب منسٹر ہی بنے رہیں گے، میئر بننے کے لیے بے لوث خدمت کی ضرورت ہے اور اگر مرتضیٰ وہاب کرنا بھی چاہیں تو ان کی حدود متعین کردی گئیں۔ آخر میں ہم پھر حافظ نعیم الرحمن کا ارشاد دہراتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے میئر کراچی کو بھی اختیار دینا نہیں چاہتی تب ہی تو مرتضیٰ وہاب نے سسٹم اور مافیاز سے تنگ آکر آصف زرداری سے فری ہینڈ مانگا ہے۔