شب و روز تماشا میرے آگے

793

آج ہر نیا دن ایک بدنامی کو سامنے لے کر آتا ہے، ہم دنیا میں مذاق بن چکے ہیں جو بھی حکمران ملتا ہے وہ دولت کا پجاری ہی نکلتا ہے، اُس کی غذا ڈالر ہے، وہ ڈالرز کو دیکھ کر اپنا ضمیر فروخت کردیتا ہے۔ سیاست جو کبھی خدمت ہوتی تھی آج سب سے بڑی تجارت بن چکی ہے، مذہب کے نام پر دہشت گردی روز کا معمول بن چکا ہے۔ شیعہ اور سنی جو آپس میں محبت کے ساتھ رہتے تھے اُن کو آپس میں لڑوایا گیا، بے شمار بے گناہ لوگ مارے گئے۔ اب ایک واقعہ جڑانوالہ میں ہوا جس پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے ایک بڑا اعلان کیا کہ سانحہ جڑانوالہ کے متاثرین کی بحالی اور چرچوں کی اور گھروں کی تعمیر کا کام جماعت اسلامی کرے گی۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے خود جا کر متاثرین سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ وہاں موجود متاثرین میں امدادی چیک بھی تقسیم کیے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ دیگر علما حضرات اور سیاسی لوگوں نے بھی بیانات دیے۔ ابن آدم نے بھی کہا کہ اسلام امن اور سلامتی کا دن ہے۔ غیر مسلموں کا تحفظ مسلمانوں کی ذمے داری ہے۔ میں نے فوری طور پر بشپ نظیر عالم، جان جگنو اور اپنے دوست عبدل مسیح کو فون کرکے اس واقعے کی پرزور انداز میں مذمت کی، کسی بھی شخص یا ہجوم کو خود جج اور جلاد نہیں بن جانا چاہیے، کسی نے توہین مذہب کے ارتکاب کی ناپاک جسارت کی تو اسے قانون کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔ 13 کے قریب چرچز جلادیے گئے اور اُن میں موجود مقدس کتاب بائبل کے نسخے بھی نذر آتش ہوئے ہمارے یہ مسیحی بھائی سچے پاکستانی ہیں وہ اس ملک کو اپنا وطن سمجھتے ہیں۔

نبی اکرمؐ نے 628 عیسوی میں سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کا ایک وفد جو آپؐ کے پاس آیا اور ان سے پناہ دینے کی درخواست کی جس پر ہمارے نبی رحمتؐ نے فرمایا ’’یہ پیغام محمدؐ ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک ایک عہد ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں، بے شک میں، میرے خدمت گار، مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے کیوں کہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ عورت کو عبادت کے لیے گرجا گھروں تک جانے سے کوئی نہیں روکے گا، قوم کا کوئی فرد روز قیامت تک اس معاہدے سے روگردانی نہیں کرے گا۔

اب چلتے ہیں ملک کے نہایت حساس مسئلے، حساس بل پر صدر پاکستان کے ٹویٹ کی

جانب۔ سیکرٹ ایکٹ میں ایک ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظوری کے لیے صدر پاکستان کو بھیجا گیا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 75 کی رو سے صدر کو پارلیمنٹ جو بھی بل توثیق کے لیے بھیجی جاتی ہے ان کے پاس دو ہی آپشن ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ دستخط کردیں اور منظوری دے دیں یا پھر 10 دن کے اندر اپنی تحریری رائے کے ساتھ دستخط کرکے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں، پھر بل پر پارلیمنٹ غور کے بعد صدر کو بھیجے تو وہ 10 روز کے اندر دستخط کرکے منظوری دیں ورنہ مدت ختم ہونے کے بعد بل خود بخود قانون کا درجہ حاصل کرلے گا۔ جس وقت آفیشل سیکرٹ کا بل صدر کے پاس آیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا پھر یہ ترمیمی بلوں کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو اس کے 2 دن کے بعد صدر صاحب نے ٹویٹ کردیا کہ میں نے اس بل پر دستخط نہیں کیے اور انہوں نے گواہ بھی اللہ پاک کی ذات کو رکھ کر یہ بیان دیا۔ صدر صاحب نے فرمایا میرے عملے نے میری مرضی اور میرے حکم کی خلاف ورزی کی اور کہا کہ میں اُن تمام لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو ان بلوں سے متاثر ہوئے۔ 9 مئی کے واقعے کے علاوہ اور کوئی بھی اس بل سے متاثر نہیں ہوا۔ اب پی ٹی آئی اس بل کے حوالے سے عدالت عظمیٰ جارہی ہے، سوشل میڈیا کہتا ہے کہ صدر نے اپنی سیاسی پارٹی سے وفاداری کی ہے، دوسری طرف صدر نے اپنے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کرنے کے لیے خط لکھ دیا۔ اب وقار احمد یہ حلفیہ بیان دینے کو تیار ہیں کہ آرمی ترمیمی بل کی فائلز اب بھی صدارتی چیمبر میں موجود ہیں۔ اگر عدالت عظمیٰ نے بلایا تو ریکارڈ کے ساتھ جا کر حقائق بتائوں گا۔ اس وقت ملک کے کئی سیاست دان صدر صاحب سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ صدر صاحب نے جن خاتون کو وقار احمد کی جگہ تعینات کرنے کی سفارش کی تھی انہوں نے بھی ایوان صدر آنے سے انکار کردیا۔ اب صدر صاحب کا یہ ڈبل گیم کیا رنگ لے کر آتا ہے بس یہ تماشا دیکھنا باقی ہے۔ ایک اور نیا تماشا نگراں حکومت نے بجلی کمپنیاں صوبوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اب اگر کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کو عوام کو کوئی سبسڈی دینی ہے یا اُس پر مزید بوجھ ڈال کر اُس کو پاگل کرنا ہے تو یہ صوبے کا اختیار ہوگا۔ جتنی بجلی چوری ہوگی اتنا بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے گا کیوں کہ ریاست کے پاس بجلی چوروں کو پکڑنے کے لیے نہ کوئی فورس ہے، یہ قانون بجلی چوری کرنے والے کے لیے سخت قانون کے ساتھ اُس پر عمل درآمد بھی لازم ہے، ساتھ ساتھ مراعات یافتہ طبقوں سے مفت بجلی، گیس، پٹرول کی سہولتیں واپس لے کر قومی خزانے کو مستحکم کیا جائے۔ عوام کا اضافی بوجھ کم کیا جائے، سندھ کے وزیراعلیٰ سے ابن آدم کا مطالبہ ہے کہ آپ بجلی کے بلوں پر 50 فی صد سبسڈی دینے کا اعلان کریں۔