شفاف اور غیرجانبدار انتخابات۔ وقت کی ضرورت

622

آزادی بہت بڑی نعمت ہے، جس کی قدر وقت کا تقاضا ہے۔ یوم آزادی اللہ کا شکر بجالانے، غورو خوض کرنے اور اپنے محاسبے کا دِن ہے۔ جو ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے مگر شاید بحیثیت قوم ہم غورو فکر نہیں کرتے اور اپنے عمل اور رویوں میں بہتری لانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی پرعزم قیادت اور علامہ اقبال کی فِکر روشن نے برصغیر کے مسلمانوں کو بیدار اور متحرک کیا، جس کے نتیجے میں عظیم الشان تحریک پاکستان منظم اور برپا ہوئی۔ قیام پاکستان قائد اعظم کی کرشمہ ساز قیادت کا کردار ہے پاکستان، مِلت اسلامیہ کی آزادی اور اسلام نشاۃ ثانیہ کی طرف اوّلین قدم تھا۔ لیکن افسوس کہ 76سال گزرنے کے باوجود مقاصد حاصل نہ کیے جا سکے۔ قدرتی وسائل، انسانی وسائل اور بہترین جغرافیائی محل وقوع، ایٹمی صلاحیت اور ذرخیز زمین کے باوجود پاکستان بڑے بحرانوں سے دوچار ہے۔ قومی سلامتی کے لیے خطرات اپنی جگہ، بدترین اقتصادی صورتحال اور آئینی وسیاسی بحران سامنے کھڑے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فسطائیت اور دہشت گردی کا بڑھتا ہوا عفریت قومی قیادت کے لیے بڑے چیلنجز ہیں۔ اخلاقی، تہذیبی، معاشرتی زوال خطرات کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ قوم عزم نو، ایمانی جذبوں کے ساتھ خوشحال، جدید اور روشن پاکستان بنانے کے لیے کمربستہ ہو۔
انوار الحق کاکڑ کا بطور نگران عبوری وزیراعظم تقرر خوش آئند ہے۔ اسی طرح وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا اتفاق بھی جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ مگر نگران وزیراعظم کا نام اچانک کہاں سے برآمد ہوا اور اس پر سرعت کے ساتھ کیسے اتفاق ہوگیا۔ یہ اوپن سیکریٹ ہے۔ 8ویں نگران وزیراعظم کے تقرر کا ایک ہی فارمولا ہیکہ میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے، ماننے اور بھگتنے کی ذمے داری کسی اور پر ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ 1970ء کے بعد سے سول ملٹری تعلقات میں کشمکش اور اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کی خواہش، پاکستان کے سیاسی عمل کے لیے مسلسل دردسر اور ناسور بن گئی ہے۔ 2002ء، 2008ء، 2013، 2018ء کے انتخابات کے بعد آنے والی چار اسمبلیوں نے اپنی پانچ سالہ مدت ضرور پوری کی ہے لیکن ملک سیاسی، اقتصادی اور انتظامی طور پر مستحکم ہو سکا اور نہ حالات بہتر ہوئے۔ 2023ء کے انتخابات جہاں الیکشن کمیشن کے لیے بڑے چیلنجز لے کر آئے ہیں وہیں پر نگران حکومت کے لیے بھی یہ چیلنج کم نہیں۔ عوامی اعتماد کی بحالی، آئینی مدت میں انتخابات کا انعقاد بروقت اور شفاف انتخابات اور مردم شماری جیسے ایشوز کو آئین کی پامالی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ضرورت ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان تمام جماعتوں کی مشترکہ کانفرنس بلائے اور صاف شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات کے لیے اقدامات کرے۔
ملک میں جمہوری پارلیمانی اقدار کے استحکام، آئین کی پاسداری، عدل وانصاف کے قیام اور عوامی اعتماد کی بحالی کے ذریعے ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے جہاں سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کو اپنے رویّے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ وہیں پر اقتدار اور کرسی کے کھیل سے جان چھڑانا ہو گی۔ اس کے بغیر نہ ملک میں جمہوریت پنپے گی اور نہ آئینی وقانون کی پابندی اور نہ اس کے نتیجے میں نگران حکومت الیکشن کمیشن کی ساکھ اور وقار بحال ہو گا۔ سیاسی جمہوری پارلیمانی پارٹیاں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، انتخابات کے لیے عبوری حکومت، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کام میں مداخلت نہ کی جائے، تمام اسٹیک ہولڈرز بروقت، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات پر اتفاق کرلیں۔ 2013، 2018 کی طرح 2023ء کے عام انتخابات متنازع بننے سے بچایا جائے۔ یہ ملک کی سلامتی، وحدت اور اقتصادی نظام کے لیے اور زیادہ تباہ کن ہو گا۔ انتخابات میں تاخیر سراسر غیرآئینی، غیر جمہوری اور آمرانہ ہے۔ سیاسی جمہوری آئینی اور پارلیمانی اقدار میں اصولوں اور ضابطوں کی ہی پاسداری ہوتی ہے۔ کسی ایک معاملہ میں بھی آئین اور قانون کو پامال کیا جائے تو اس کے دیرپا منفی اثرات پوری قوم کے وجود پر پڑتے ہیں۔ غیر آئینی اورغیرجمہوری روش سے قوم کو دھوکہ نہ دیا جائے۔ اتحادی حکومت نے رخصت ہوتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں جیسے مردم شماری تنازع پر اعتراض ختم کرنے کے بجائے، عاجلانہ فیصلے کیے اور انتخابات میں تاخیر اور التواء کا کھیل کھیلا۔ ضرورت ہے کہ عبوری حکومت انتخابات کرائے اور مردم شماری کے نتائج پر تنازعات اور اعتراضات پر ادارے اپنا کام کریں، متنازع مردم شماری کے ذریعے انتخابات کے التواء کا کھیل نہ کھیلا جائے۔ یہ کسی طرح ملکی مفاد میں نہیں۔ 2023ء کے انتخابات متنازع ہوئے تو اس کے نتائج خدانخواستہ مارشل لا کی صورت میں برآمد ہوں گے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت مکمل ہو گئی، جمہوریت، پارلیمانی نظام اور آئین پاکستان کا تقاضا ہے کہ 90 دن میں انتخابات کرائے جائیں، وفاقی حکومت کے علم میں تھا کہ مردم شماری کی بروقت تکمیل سے اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر بروقت انتخابات کرائے جا سکیں گے لیکن بدنیتی اور سیاسی انجیئنرنگ کے لیے مردم شماری کے نتائج کی نوٹیفکیشن کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا تاکہ آئینی ابہام پیدا کر کے انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کیا جا سکے۔ آئین کی روح یہ ہے کہ جمہوریت، عوام کے انتخابی حق کو اوّلیت ملنی چاہیے۔ انتخابات 2023ء کو متنازع نہ بنایا جائے، آئینی مدت میں انتخابات کرائے جائیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان 24 کروڑ عوام کو جمہوری حق سے محروم نہ کرے۔
آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے دو ہی راستے ہیں، اوّلین یہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان دباؤ سے آزاد ہو کر آئینی مدت میں بروقت انتخابات کا انعقادیقینی بنائے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے انتخابات کے تنازع سے نکلیں، اس مرحلہ پر آئینی مشوروں حکومتی بدنیتی اور ٹکراؤ کی جمہوریت، انتخابات، آئین کو لاحق خطرات سے بچاؤ کے لیے تمام ججوں پر مشتمل فل بنچ بنائیں اور بروقت انتخابات کے لیے آئین کی تشریح کا آئینی کردار ادا کریں اور ملک وقوم کو بحرانوں سے نکالیں۔