اے ابن آدم پاکستان اور پاکستانی قوم کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اقتدار کے اندھوں اور اقتدار کی لالچ نے سیاست دانوں کی عقل پر تالا ڈال دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں نے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، میں اپنے دشمن ملک کی طرف دیکھتا ہوں تو شرم آتی ہے۔ بھارت کے کچھ صوبوں میں عوام کو مفت بجلی کی سہولت حاصل ہے۔ بھارت کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6 سو ارب ڈالر سے زائد ہوگئے وہاں کبھی مارشل لا نہیں لگا ہر ادارہ ملک کے مفاد میں کام کرتا ہے۔ اگر پاکستان سے کوئی بھارت جاتا ہے تو وہاں کی سی آئی ڈی اُس کا تعاقب کرتی رہتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں ہر ملک کے لوگ آکر غیر قانونی طور پر رہنا شروع کردیتے ہیں، شادیاں کرلیتے ہیں اور ہمارے ادارے سوتے رہتے ہیں، اب قومی الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے، موجودہ حکومت نگراں حکومت بھی اپنی مرضی کی چاہتی ہے تا کہ قومی الیکشن میں اُس کو سیاسی سہولت حاصل ہوجائے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی سندھ پر دوبارہ حکومت کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ بلاول زرداری نے اعلان کیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے 20 لاکھ گھر بنائیں گے، ایسا لگتا ہے کہ بلاول اپنی جیب سے یہ کام کریں گے یہ ایک سیاسی ڈراما ہے صرف الیکشن جیتنے کے لیے اس طرح کے اعلانات کیے جاتے ہیں۔ قوم اب اتنی بیوقوف نہیں ہے جتنا سیاست دان سمجھ رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت بجلی کو روز بروز مہنگا کررہی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کے الیکٹرک کو پھر عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کے الیکٹرک کے لائسنس میں 6 ماہ کی عبوری توسیع کی شدید مذمت کرتے ہیں یہ وہ عوام دشمن ادارہ ہے جس نے دونوں ہاتھوں سے کراچی والوں کو لوٹا ہے۔ بدترین لوڈشیڈنگ اور اوور بلنگ سے مسلسل دوچار کیا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت نے جو معاہدہ کیا ہے اس میں قرضوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کی غلامی میں ہر بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا، توانائی پر سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے علاوہ درآمدات پر پابندی ہٹانے کا یقین بھی دلایا ہے۔ اس وقت مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ آج پاکستان کو سخت معاشی بحران کا سامنا ہے۔ آٹے اور چینی کی قیمت کیوں بڑھی ہے سمجھ سے باہر ہے، غریب تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ لاکھوں لوگوں کی صحت خوراک اور مناسب معیار زندگی کے حقوق خطرے میں پڑ رہے ہیں۔ آج پاکستان کے کم آمدنی والے شہریوں کے حقوق اور مفادات دائو پر لگ چکے ہیں غریب ایک کام آسانی سے کرسکتا ہے وہ ہے خودکشی، جو ہمارے ملک میں روز ہو رہی ہے بجلی کے لائف لائن صارفین کو ٹیرف میں حاصل رعایت ختم ہو چکی ہے اب 50 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کا بل بشمول ٹیکس آئے گا ہم بجلی فرنس آئل سے بنا رہے ہیں اس کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت اضافہ تو ہوگا بجلی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس پر اگر کوئی بات کررہا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے باقی کسی جماعت کو عوامی مسائل اور بھوک سے مرتے ہوئے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں، آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے سے عوام ذہنی مریض بن رہے ہیں حکمرانوں کو تو اس اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ مسئلہ تو عام آدمی کا ہے۔
آئی ایم ایف کے 3 ارب ڈالر کہاں جائیں گے کون جانتا ہے پھر سے مالداروں کو قرض دے کر معاف کردیا جائے گا ان کو کون پوچھنے والا ہے؟ اگر پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنا ہے تو فوری طور پر ڈیم سے سستی بجلی بنائی جائے۔ اربوں ڈالرز کے قرضے معاف کروانے والوں سے سود کے ساتھ قرض واپس لیا جائے جو ادا نہ کرے اس کی املاک کو فروخت کرکے رقم وصول کی جائے ملک میں سرمایہ کاری لائی جائے اور انڈسٹری پر توجہ دی جائے۔ صورت حال تو اس وقت یہ ہے کہ عوام ایک آٹے کے تھیلے کے لیے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں وہ عام آدمی جس کو صرف ایک تنخواہ ملتی ہے یا یومیہ اجرت پر زندگی گزارنا ہے اس کا حال کون پوچھے گا امرا اور طاقتور افراد کے تو اربوں کھربوں کے قرضے معاف ہوتے ہیں اور ان کا پورا بوجھ عام آدمی پر ڈالا جاتا ہے کاش اس قوم کو کوئی حاکم ایسا بھی تو نصیب ہو جو ایسا بھی کوئی معاہدہ کرے جس سے کروڑوں افراد کی زندگی میں سہولت پیدا ہو۔
حکومتیں صرف قرض حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتی ہیں مگر اپنے پائوں پر کھڑ اہونے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتیں۔ عوام کے علم میں یہ بات لے کر آرہا ہوں کے ہم آئی ایم ایف سے 21 پروگرام کرچکے یعنی 76 سال میں 21 بار بھیک مانگی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں قرض کی ادائیگی کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے ہمارے اخراجات ہماری آمدن سے زائد ہیں ہماری اشرافیہ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہوں میں 20 فی صد اضافہ کیوں کیا؟ ہے کوئی جواب؟ 90 کے قریب وزرا ان کی مراعات ان کے غیر ملکی دورے بیرون ملک علاج، بجلی، گیس، رہائش، پٹرول سب مفت۔ کیا قائداعظم نے پاکستان ان کے لیے بنایا تھا جس وقت میرا بانی میرا قائد گورنر جنرل تھا تو وہ کابینہ کے اجلاس میں چائے دینے کو بھی منع کردیتا تھا۔ مگر ہمارے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کا تو ہر ماہ کروڑوں کا خرچ ہے یہ تمام عیاشی ختم کیے بغیر ہم کبھی بھی پائوں پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ قرض تو اس حکومت نے لے لیا پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا مگر اس کا مستقبل کیا ہوگیا۔
سابقہ حکومت کی طرح اس اتحادی حکومت نے بھی ٹیکس بیس بڑھانے اور معیشت کو دستاویزی کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 25 کروڑ کی آبادی میں صرف 45 لاکھ افراد ٹیکس گوشوارہ داخل کرواتے ہیں۔ ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد یا تو زیرو کی ریٹرن فائل کرتی ہے یا بہت کم آمدن ظاہر کرکے صرف فائلر ہونے کے لیے گوشوارہ داخل کرتے ہیں ایک تنخواہ دار طبقہ ہے جس پر جتنا بوجھ ڈال دو اس کی گردن پتلی ہے آج تک کسی حکومت نے ایمانداری کے ساتھ ٹیکس ریفارمز نہیں کیے صرف زبانی جمع خرچ یا اخباری بیان تک محدود کیا۔ عملی طور پر کوئی کام نظر نہیں آتا ہمارے اپنے عرب دوست ممالک میں (وی اے ٹی) ویلیو ایڈٹ ٹیکس کا نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے ہم وہ کیوں نہیں اپنا لیتے اس سے جعلی انوائس، ان پٹ ایڈجسٹمنٹ اور ریفینوز کا سارا نظام ہی ختم ہوجائے گا اور بڑی امید ہے کہ شاید سیلز ٹیکس کی مد میں حالیہ اکٹھے ہونے والے ٹیکس سے زائد ٹیکس اکٹھا ہوسکے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹیکس کی مد میں 12 سے 14 ٹریلین اکٹھا کیا جاسکتا ہے اگر حکومت اور ایف بی آر سنجیدگی سے ٹیکس بیس بڑھانے پر توجہ دے مگر اس کے لیے ایف بی آر کو محنت کرنا ہوگی۔ افسران ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر وقت گزارنے کے بجائے کام کو ملک و قوم کے مفاد میں کریں اگر ہم نے محنت نہیں کی تو ہمیں Vicious Circle (شیطانی دائرے) میں ہی رہنا ہوگا اور بیرونی قرضوں پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔