باب الاسلام سندھ کی دھرتی پر

850

رانی پور درگاہ کی حویلی میں روٹی اور لنگوٹی کی قیمت پر کام کرنے والی فاطمہ کی ہلاکت اس وقت میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ اختیار کر گئی ہے۔ ہر اک اس مظلومہ کے لیے انصاف میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ سماجی ورکر، مظاہرے کر رہے ہیں، تو سیاسی رہنما تعزیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے۔ اس سانحہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کر سکتے ہیںکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق نے ٹڈھے پر پہنچ کر ورثاء سے تعزیت کی۔ قارئین کو بتاتے چلیں کہ متوفی کے ورثاء فوتگی کے بعد ایک جگہ مختص کر کے بیٹھتے ہیں اور وہاں وہ رشتہ داروں، ہمدردوں اور غم گساروں سے تعزیت وصول کرتے ہیں اس جگہ کو ’’ٹڈہ‘‘ کہتے ہیں۔ فاطمہ جس کی عمر مشکل سے دس گیارہ سال تھی وہ پیر اسد اللہ شاہ کی حویلی میں بے یارومددگار تڑپ تڑپ کر انتقال کر گئی۔ جاری کردہ ویڈیو کے آخری لمحات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ تڑپ رہی ہے اور ایک عورت جو مبینہ طور پر حنا شاہ ہے وہ تماشا دیکھ رہی ہے، سنگ دلی اور کیا ہوتی ہے؟ برابر کی مسہری پر اسد اللہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے اور یوں فاطمہ زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔

سندھ میں ایک رواج ہے کہ غریب مریدین اپنی بچیوں کو پیر صاحب کی حویلی میں بھجواتے ہیں وہ پیر کے پورے گھرانے کی خدمت کرتی ہے۔ اس کو ’’باٹھی‘‘ کہا جاتا ہے اس کی دو وجہ ہیں ایک تو ثواب ہے کہ مرشد کی خدمت میں پورا گھرانا جنت کا حقدار ہو گا اور دوسری وجہ غربت ہے کہ روٹی اور کپڑے لتے کا خرچ بچے گا۔ یہ دونوں چیزیں اترن اور بچی ہوئی چیزیں اس بچی کو میسر آتی ہیں۔ سندھ میں جو مرید بنتا ہے وہ مرشد کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اس کو ’’بیع‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی اس نے اپنا سب کچھ مرشد کے حوالے کر دیا اور پھر وہ مرشد کے گھرانے کے بال بچوں کے ساتھ خدمت کو سعادت سمجھتے ہیں۔ حویلیوں میں کیا ہوتا ہے سندھ کی معروف ادیبہ نورالہدیٰ شاہ نے ایک کتاب حویلی کے راز میں شرمناک، خوفناک انکشاف کیے ہیں دل چسپ بات یہ ہے کہ مصنفہ کا تعلق بھی ایک حویلی سے تھا۔

سندھ میں رسول اللہؐ کے گھرانے سے نسبت کی بدولت سید کو انتہائی قابل احترام نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ظاہر کے اعمال کے بجائے ان کی جڑ دیکھتے ہیں کہ یہ خوشہ رسالت ہے۔ اس کا اندازہ یوں بھی کر سکتے ہیں کہ راقم نے آصف علی زرداری سے دریافت کیا کہ آپ 88 کے انتخاب کے بعد بننے والی اپنی حکومت میں سید سے کنارہ کر کے کسی اور کو وزیراعلیٰ بنا سکتے ہیں تو وہ جواب نہ دے سکے اور سید وزیراعلیٰ کا تسلسل برقرار رہا سید چاہے کسی بھی پارٹی میں ہوں مگر سید کاز ایک ہوتے ہیں سندھ جو لسانی بھٹی بنا ہوا ہے وہاں مہاجر سندھی کش مکش کے ساتھ سید اور بلوچ کش مکش بھی نمایاں ہے اور یہ دونوں طبقہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سرکاری زمین و ملازمت ہتھیانے میں مدمقابل ہیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ انسانیت کا درس دینے والے کسی بھی سجادہ نشین نے رانی پور کے سانحہ کی مذمت تو کجا بلکہ اس کی آزادانہ تحقیقات کا بیان نہیں دیا تو میڈیا میں بلوچ طبقہ نے اس موقع کو غنیمت جان کر خوب بھڑاس نکالی یہ معاملہ جو میڈیا پر خوب اچھالا جارہا ہے اس کا ایک پہلو یہ بھی بلوچ قبائل کی درندگی کو اجاگر کیا جارہا ہے سواس کی منصوبہ سازی بھی اس ہی گرائونڈ پر کی جا رہی ہے۔ ایک اینکر چانڈیہ جو بیرون ملک پناہ گزین ہیں اور معروف ہیں انہوں نے بلوچوں کو کہا کہ زمینوں پر قبضے کرو۔ ڈاکا ڈالو جب بلوچ ہو اور جب کچھ ہو تو مظلوم سندھی بن جائو۔

فاطمہ سانحہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بن چکی ہے وہ تحقیقات جب تک کرے گی جب تک کوئی اور واقعہ سانحہ اس کی جگہ لے لے گا اور پھر یہ واقعہ بھول بھلیاں ہو جائے گا۔ فاطمہ نام کو بنت رسولؐ سے نسبت نے بھی اہمیت خوب دلائی جو ویسے بھی اس کا حق ہے۔ اس کی رپورٹ آنی چاہیے اور ذمے دار خواہ کتنے ہی بااثر ہوں سزا ملنی چاہیے۔ ’’عقیدت‘‘ نے جو خرابی کا سامان کیا اس کی روک تھام کا بندوبست بھی انتہائی ضروری ہے۔

یاد رہے کہ سندھ حکومت نے مئی 2018ء میں ایک اہم قانون پاس کیا جس کو ہوم بیسڈ ورکر ایکٹ یعنی گھریلو ملازمین کا قانون، یہ برصغیر میں اپنی نوعیت کی پہلی قانون سازی تھی اس قانون میں کہا گیا کہ گھریلو ملازم اس کو کہا جائے گا جو کسی کارخانہ، ٹھیکیدار اور کسی بھی درمیانی کمپنی کے توسط سے رکھا جائے گا۔ بعدازاں 2019ء میں پنجاب میں، پھر 2021ء میں اسلام آباد اور 2022ء میں بلوچستان میں سندھ سے ملتا جلتا گھریلو ملازمین کا قانون پاس ہوا۔ افسوس صد افسوس ہے کہ اس قانون کے بانی صوبہ سندھ میں فاطمہ کی ہلاکت کے دردناک واقعہ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، اس کی بڑی وجہ روحانی گدی کے اس قتل میں آلودگی کا ہونا ہے۔ دین اسلام تو بتاتا ہے جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں، اس واقعہ کی سنگینی پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نہ صرف موقع واردات پر تشریف فرما ہوئے ایک بڑی احتجاجی ریلی میں شرکت اور حکومت، عدالت، ریاست سے مطالبہ کیا کہ معصوم فاطمہ کے مجرم کو پھانسی دی جائے اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا ملنے تک تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ یہ پیر نہیں بلکہ انسان نما شیطان تھے جس نے وحشیانہ ظلم کیا۔ آرمی چیف، چیف جسٹس، گورنر، صدر، سندھ کے سابق و موجودہ وزیراعلیٰ سمیت کوئی فاطمہ کے لواحقین سے داد رسی کے لیے نہیں پہنچا۔ شاید ان کے پاس دل نہیں، امیر محترم نے صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے دھرنے میں بھی شرکت کی۔ آپ کے ہمراہ اسد اللہ بھٹو، محمد حسین محنتی، مجاہد چنا بھی تھے۔