بلجیم کی نور، معمر خاتون ہیں جن کا نام اسلام لانے سے قبل ’’جیورگاٹ لوبپول تھا۔ جب ان کی عمر 90 برس سے تجاوز کر گئی، یعنی یہ اولاد کی محتاج ہوگئیں تو ان کے بچوں نے فیصلہ کیا کہ ماں سے جان چھڑانی چاہیے۔ ایک دن طے ہوا کہ اگلے روز انہیں اولڈ ہائوس کے حوالے کر دیا جائے۔ جیورگاٹ لوبپول کے پڑوس میں ایک مراکشی خاندان مقیم تھا۔ 40 سال سے اس مسلمان فیملی کے ساتھ ان کے تعلقات تھے۔ السید محمد مداح خود بھی مسلم روایات کے امین تھے۔ محمد مداح کی والدہ بھی بوڑھی اور جیورگاٹ لوبپول کی ہم عمر تھیں۔ جب انہیں پتا چلا کہ پڑوسی اپنی ماں سے جان چھڑانے والے ہیں تو انہوں نے پڑوسیوں سے کہا کہ اگر یہ بزرگ تمہارے لیے بوجھ ہیں تو انہیں ہمارے حوالے کردو، یہ ہماری ماں کے ساتھ رہیں گی اور میں اپنی ماں کی طرح ان کا خیال رکھوں گا۔ یہ کہہ کر وہ جیورگاٹ لوبپول کو اپنے گھر لے آئے۔ خاتون نے یہاں آکر جو ماحول دیکھا، تو اس کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ سارے اہل خانہ مداح کی ماں کے لیے پلکیں بچھانے کو تیار رہتے تھے۔ کوئی باہر سے آتا تو پہلے اسے سلام کرکے ہاتھوں کا بوسہ لینا ضروری سمجھتا تھا۔ جیسے یہ بوڑھی ماں اس گھر کی ملکہ ہے۔ اسی طرح کے احترام کا سلوک اس بزرگ خاتون سے بھی کیا جانے لگا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ دو چار دن کی کہانی ہو، پھر یہ بھی میرے بچوں کی طرح ہو جائیں گے مگر نہیں، اس کا خدشہ غلط ثابت ہوا۔ کئی دن گزرنے کے بعد بھی اس کی خدمت و عزت میں کوئی کمی نہیں آئی تو اس نے کہا کہ یہ کیسا خوبصورت دین ہے، یہ تو سراسر رحمت ہے۔ مجھے بھی اس دین میں داخل کردو۔ چنانچہ 91 برس کی یہ خاتون بھی کلمہ پڑھ کر نور اسلام سے منور ہو گئیں۔
میں نے یہ عبارت ابھی فیس بک میں پڑھی ہی تھی اور سوچ رہا تھا کہ نہ صرف اس واقعے کو دوسروں تک پہنچاؤں، پاکستان کے ایک شہر ’’جڑانوالہ‘‘ میں نہایت افسوسناک واقعہ ہوگیا۔ اس واقعے کا سن کر مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں رہی کہ میں ایسے بصیرت افروز واقعے میں کسی اور کو بھی شریک کر سکوں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ دنیا کی کئی ممالک میں ایک تسلسل کے ساتھ قرآن کی بے حرمتی اور جلائے جانے کے واقعات سننے اور دیکھنے میں آ رہے ہیں جس کی وجہ سے تمام عالم اسلام میں بے چینی کی ایک لہر دوڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی مسلمانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ جڑانوالہ کے لوگوں نے قرآن کے کچھ اوراق کو بے جگہ بکھرا ہوا دیکھا تو دنیا میں دکھ دینے والے واقعات کے زخم اور بھی ہرے ہو گئے۔ ابھی یہ بات سچ ہے یا جھوٹ کہ واقعی جڑانوالہ میں قرآن کے اوراق کو بے جگہ پایا بھی گیا یا نہیں یا ایسا مسیحوں ہی نے کیا، تحقیق طلب ہی تھی، پھر بھی اس کے ردِ عمل کے طور پر جو کچھ ہوا وہ کسی صورت بھی نہ تو قانوناً جائز ہوا اور نہ ہی اخلاقاً۔ اوّل بات تو یہ ہے کہ پاکستان سمیت پوری دنیا کا قانون اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ کوئی بھی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے اور جذبات میں کوئی شخص یا گروہ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے تب بھی حد سے گزر جانا کسی بھی صورت قابل ِ معافی ہونا ہی نہیں چاہیے۔ آپؐ کے ساتھ کیا کیا کچھ نہیں ہوا لیکن نہ تو آپؐ نے کبھی کوئی سخت قدم اٹھایا نہ ہی اپنے صحابہ کو کوئی سخت قدم اٹھانے دیا۔ اسلام رواداری کا مذہب ہے، بے شک بدلہ لینے سے منع نہیں کرتا لیکن عفو و درگزر کرنے اور احسان کا رویہ رکھنے کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ جڑانوالہ کے لوگوں نے ہر حد پار کرتے ہوئے نہ صرف گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ مچائی بلکہ وہاں کے رہائشیوں کو بھی بہت زک دی۔ یہ سب ردِ عمل سراسر غلط اور غیر انسانی تھا جو کسی صورت نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس واقعے کی پورے پاکستان میں مذمت کی گئی اور ملک کے تمام طبقہ ہائے حیات، بشمول علمائے دین کی جانب سے حکومت ِ وقت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مجرموں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے اور ان کو ہر صورت میں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے قرار واقعی سزا دلوائے۔ قوم اس سانحے پر پوری قوم مسیحی برادری کے ساتھ ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے مسیحی برادری کے مذہبی رہنما سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جڑانوالہ کے دلدوز واقعے کی امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی پرزور مذمت کی ہے، اس سانحے پر پوری قوم افسردہ ہے، اسلامی ریاست کا کام محض مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ ریاست میں رہنے والی تمام اقلیتوں سمیت سارے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اسلام گرجا گھروں کو جلانے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں پر ظلم کرنے کا ہرگز درس نہیں دیتا۔ اسلام کے عادلانہ نظام میں غیر مسلموں کو بھی برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ قرآن کریم کی بے حرمتی کے حوالے سے مغرب میں واقعات رونما ہورہے ہیں، جس کے نتیجے میں رد عمل بھی سامنے آتا ہے۔ توہین قرآن پاک کے خلاف جماعت اسلامی کے مظاہرے میں کارڈینل سمیت تمام اقلیتی برادری نے بھی شرکت کی تھی اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف مذمت کا اظہار کیا تھا۔ قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف نہ صرف مسیحی برادری بلکہ تمام اقلیتی برادریوں نے بھی مذمت کا اظہار کیا تھا۔ کسی بھی مذہب میں مقدس کتابوں اور عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کی اجازت نہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ جب حکومت، ریاست اور متعلقہ ادارے اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے تو پھر سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات ہوتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت و ریاستی ادارے 9 مئی کے واقعے کی طرح تیزی دکھاتے ہوئے سانحہ جڑانوالہ کی مکمل تحقیقات کر کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
پاکستان کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی مثال بنیں کہ دنیا ان کا حوالہ دے۔ ایک مغربی ملک میں قرآن کے نذرِ آتش کیے جانے پر مسلمانوں نے وہاں کی حکومت سے مسیحی کتابیں جلانے کی اجازت مانگی جو دیدی گئی۔ مقررہ تاریخ اور وقت پر وہ مسیحی مقدس کتب لے کر وہیں جمع ہوئے جہاں قرآن نذرِ آتش کیا گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے کتابوں کو نذرِ آتش کرنے کے بجائے لوگوں کو بتایا کہ اسلام کسی بھی مقدس کتاب کو جلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم یہ کتب جلانا گناہ کبیرا سمجھتے ہیں اس لیے اختیار اور اجازت کے باوجود ہم انہیں نہیں جلائیں گے۔ اگر وہ کتب نذرِ آتش کر دیتے تو ان میں اور مسلمانوں میں کیا فرق رہ جاتا۔ اس لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نظم و ضبط سے کام لیں اور کوئی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کریں جس کی اجازت نہ انسانیت دیتی ہو، نہ شریعت دیتی ہو اور نہ ہی قانون۔ امید ہے کہ حکومتی ادارے بھی قانون پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے اور لوگ بھی اتنے مشتعل نہیں ہوا کریں گے کہ تمام حدیں توڑ کر رکھ دیں بلکہ بلجیم کے مراکشی خاندان کی طرح پیار و محبت کی ایسی مثال بنیں گے جس کا حوالہ رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔