بھارت جہاں تشدد قانونی شکل اختیار کررہا ہے

609

بھارت کے مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ اس سے پہلے کئی نسلوں نے نہیں دیکھے تھے، اگرچہ نسلی منافرت اور فسادات ہر سال میں ہر ماہ کہیں نہ کہیں ہوتے تھے لیکن اب جیسے مودی حکومت نے مسلمانوں کو مکمل طور پر دیوار سے لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دوسری طرف مسلمان جس خوف اور بے بسی کے احساس سے گزر رہے ہیں اس کا حل انہیں صرف خاموشی میں نظر آتا ہے۔ تاج محل کو مندر بنانے کی باتیں ہوں، فیض آباد کا نام ایودھیا اور الٰہ آباد کا نام پریاگ رکھنے کا فیصلہ ہو۔ ایودھیا کی متنازع زمین پر مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ ہو، مسلمان مشتعل نہیں ہوتے، ان کی طرف سے نہ ہی کوئی خاص ردعمل سامنے آتا ہے۔ مسلمان اقتصادی، سماجی، تعلیمی، سیاسی ہر شعبے میں شدید دبائو کے ساتھ سب سے نیچے جاچکے ہیں۔ پھر بھی انہیں مزید پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ 2006ء کی ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آبادی 10.6 فی صد جب کہ جیلوں میں ان کی تعداد 32.4 فی صد ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کی آبادی 9.06 فی صد، جب کہ جیلوں میں ان کی تعداد 25 فی صد ہے۔ نئی دہلی کی ایک جیل تہاڑ جیل میں 32 ہزار 800 قیدیوں میں سے مسلمانوں کی تعداد 5 ہزار 600 ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس مسلمانوں کو شبہ اور جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرلیتی ہے۔ عدالت سے ان کو انصاف نہیں ملتا۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 25 فی صد ہے، لیکن کوئی ایک مسلمان بھی اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں۔ بابری مسجد کا معاملہ ہندوئوں نے انتخابی مہم میں کئی مرتبہ کیش کرایا۔ جذباتی نعروں اور انتہا پسند بی جے پی کے ایجنڈے سے متاثر ہو کر ملک کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے نعرے کی بنیاد پر اسے کئی بار اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا گیا۔ بابری مسجد کے مقدمے میں عدالت عظمیٰ نے ہندوئوں کے حق میں فیصلہ دیا اور مسلمانوں کو پانچ ایکڑ زمین ایودھیا کی کسی نمایاں جگہ پر دینے کا حکم دیا۔ مسلمان رہنمائوں نے کہا کہ زمین تو وہ خود کہیں بھی خرید سکتے ہیں۔ اس فیصلے پر مسلمان مزید عدم تحفظ کا شکار ہوئے انہیں دوسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس ہوا۔ ہندوتوا کا ایک بڑا مسئلہ احساس کمتری ہے۔ وہ مسلم عہد حکومت میں تعمیر کی جانے والی ہر عمارت سے بغض و عناد رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ تاج محل سے بھی جو دنیا بھر میں بھارت کی ایک بڑی اور واضح شناخت ہے، وہ کتنی مساجد کو ڈھا کر مندر بنانے کا علی الاعلان کرتے ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ وہ مندر کی جگہ تعمیر کی گئیں۔ حالاں کہ وہ اپنے دعویٰ کا کوئی ٹھوس ثبوت اب تک پیش نہیں کرسکے ہیں۔

ایودھیا کی بابری مسجد کے سلسلے میں بھی ٹھوس ثبوت نہیں تھا، پھر بھی عدالت عظمیٰ نے ہندوئوں کے حق میں فیصلہ دیا، اس کے ساتھ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بابری مسجد کو ڈھا کر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ اور یہ انہدام سراسر غیر قانونی نوعیت کا تھا۔ بابری مسجد کا فیصلہ سنائے جانے کے وقت ایودھیا کے مسلمانوں نے گھروں میں خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ ایودھیا کے 75 سالہ حاجی محبوب احمد جن کو تین عشروں قبل بابری مسجد گرائے جانے کے وقت ایودھیا چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مسلمان عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قبول کرلیں گے مگر ڈر اس بات کا ہے کہ انتہا پسندوں کے حوصلے اور بلند ہوں گے وہ اور مساجد کو گرانے کے لیے میدان میں آجائیں گے۔ مسلمانوں کے خلاف تشدد بڑھ جائے گا بلکہ باضابطہ قانونی نوعیت کی شکل اختیار کرلے گا۔ آج حال یہ ہے کہ انڈیا میں ہر سال پانچ سو فسادات ہوتے ہیں، جب کہ پوری اٹھارویں صدی میں کل پانچ ایسے فسادات ہوئے تھے، جب کہ اس سے قبل تو ان کا تصور ہی نہیں تھا۔ آج 2023ء میں بی جے پی کی حکومت والی ریاست اتراکھنڈ میں ہندو شدت پسند تنظیمیں مسلم دکانداروں کو دھمکی دے رہی ہیں کہ وہ اپنی دکانیں خالی کرکے چلے جائیں۔ ضلع کے ایک قصبے کی مرکزی مارکیٹ میں دھمکی آمیز پوسٹر لگائے گئے، جس کے بعد علاقے کے مسلمانوں میں خوف پھیل گیا۔ نیلسن منڈیلا کی پوتی انڈیلیکا منڈیلا لکھتی ہیں کہ مجھے خدشہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تیزی سے وہ کچھ بننے کے خطرے سے دوچار ہوتی جارہی ہے جس کا اندازہ انہیں خود نہیں۔