یہودیوں کی ترقی کا راز

1444

اگر آپ اسرائیل کو دْنیا کے نقشے پر دیکھنا چاہتے ہوں تو آپ کو دنیا کے نقشے پر ایک نقطہ لگانا پڑے گا اور اس نقطے سے تھوڑا بڑا پورا اسرائیل ہے جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے رقبے کے برابر ہے جس کی کْل آبادی تقریباً 65 لاکھ ہے، مگر طاقت کا ایسا سرچشمہ ہے کہ پوری دْنیا پر اپنی مرضی اور حکمرانی کرتا ہے اور دْنیا میں ہونے والے ہر فیصلوں پر اپنی منشا اور مرضی مسلط کرتا ہے، اپنی طاقتور ترین معیشت کے باعث عالمی معیشت پر اثر انداز ہوتا ہے، اسی لیے یہودی پوری دْنیا کے تمام اہم عہدوں پر فائز ہیں، کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ نوبل پرائز جب سے دیے جا رہے ہیں صرف دو مسلمانوں کے علاوہ سارے یہودیوں ہی کو دیے جاتے ہیں، یہی صورتحال کاروبار کی ہے دنیا کے جتنے بھی بڑے بڑے برانڈ متعارف ہوئے ہیں سب یہودیوں کے ہاتوں میں ہیں اس طرح عالمی معیشت کا 80 فی صد یہودیوں کے ہاتھ میں ہے، یہ تمام عوامل ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیلی قوم دنیا کی طاقت ور قوم کے ساتھ ایک قابل اور ذہین لوگوں پر مشتمل ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی کہ وہ کیا عوامل ہیں کہ اسرائیلی قوم اتنی ذہین ہے کہ دنیا میں ان کو کوئی شکست نہیں سکتا جس میدان میں دیکھیں یہ چھائے ہوئے ہیں، ان کی زندگی میں کچھ ایسے طرز عمل ضرور ہیں جن کو اپنانے کے بعد ان میں ایسی صلاحیتیں جنم لیتی ہیں جو ایک کامیاب انسان پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں، مثال کے طور پر جب ایک یہودی لڑکی کو حمل ٹھیرتا ہے تو ماں باپ دونوں ریاضی کی مشقیں حل کرنا شروع کر دیتے ہے اور دونوں اس موضوع پر گفتگو بھی کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہو تو کیسا رہے گا یا یہ اس طرح حل کر لیا جائے تو کیا نتیجہ آئے گا، اس طرح بہت سے ریاضی کے سوالات بول بول کر حل کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچہ ماں کے کھانے پینے سے لیکر اس کی سوچ و فکر کے تمام اثرات لے کر اس دْنیا میں جنم لے گا، ان کا مقصد ایک ایسے بچے کو دنیا میں لانا ہے جو معاشرے میں ایک اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ جنم لے، اسرائیلی عورت دوران حمل مچھلی کو اپنی خوراک کا لازمی جْز بناتی ہیں اْن کا خیال ہے کہ ذہنی نشو نما کے لیے مچھلی کھانا بہت ضروری ہے، یہ سوچ صرف ایک عورت کی نہیں بلکہ تمام اسرائیلی عورتوں کی سوچ ہے اور وہ اس پر عمل پیرا بھی ہوتی ہیں، پھر جب بچہ دْنیا میں آجاتا ہے تو سب سے پہلے اس کو عربی اور انگریزی زبان سیکھائی جاتی ہے دوسری طرف اس کے جسم کو توانا رکھنے کے لیے تیر اندازی اور دوڑ کر مقابلے کرائے جاتے ہیں تاکہ بہتر جسمانی نشو نما کے ساتھ وہ معاشرے کا ایک بہترین انسان بنے، ہمارے معاشرے کی طرح نہیں کہ بچہ پیدا کرنے سے پہلے اپنے کمرے میں ایک خوبصورت انگریز بچے کی تصویر لگا کر سمجھتی ہیں کہ ہم بھی ایسا بچہ جنم دیں گے، اور بچہ صرف اس لیے پیدا کر لیا کہ یہ کہہ سکیں کہ ہم ماں بننے کے قابل ہیں، اور اس بچے کے باعث ایک خاندان بنانا مقصود ہو اور جب وہ دنیا میں آجائے تو اپنے آرام کی خاطر اس بچے کو ٹی وی پر کارٹون لگا کر یا موبائل پر کوئی کارٹون لگا کر دے دیا جائے، تو پھر ہمارے بچوں اور ان کے بچوں کا فرق آپ خود دیکھ لیں، وہاں صرف تعلیم نہیں بلکہ پیدائش سے پہلے اس کی تربیت کا کام شروع ہو چکا ہے اور ہم صرف تعلیم پر توجہ دے کر سمجھتے ہیں کہ بڑا کام کر لیا، اب آپ اندازہ کریں کہ ہمارا نظام تعلیم کیسا ہے ہم جو کچھ پڑھا رہے ہیں ہمیں خود نہیں پتا کہ کیا پڑھا رہے ہیں، اور اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے اور تربیت صفر، ریسرچ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ کیلی فورنیا یونیورسٹی کا یہودی بچہ اسرائیلی یہودی بچے سے ذہن کے مقابلے میں چھے سال پیچھے ہے، ان کے ہاں جب بچہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رہا ہو تو آخری چند سال اس کو بزنس پڑھنا لازم ہوتا ہے پھر اس کو ڈگری میسر ہوتی ہے، اس طرح وہ بزنس کا ماہر ہو جاتا ہے، پھر وہ دور حاضر کے تقاضوں کے ساتھ بزنس کے نئے نئے آئیڈیے دیتا ہے تو اسرائیلی حکومت اس کو لاکھوں ڈالر بلا سودی قرضہ فراہم کرتی ہے۔

اور پھر وہ میدان عمل میں ایک کامیاب شخص بنے کے ساتھ معاشرے کا با صلاحیت انسان بنتا ہے، جبکہ ہمارے یہاں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکا اس کے ذہن میں بس یہ خیال ہوتا ہے کہ بس جلدی سے پڑھ لوں اور اچھی سے نوکری مل جائے پھر تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد نوکریوں کے دھکے کھاتا ہے، جبکہ ہمارے پیارے آقا دو جہاں نے فرمایا ہے کہ 70 فی صد رزق تجارت میں ہے اور بقیہ حصہ مختلف کاموں میں اسی لیے مسلمانوںکو تجارت کا حکم ہے اور سْنت بھی، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت بھی اس انداز سے کریں کہ وہ معاشرے کے باصلاحیت اور بہترین انسان بن کر سامنے آئیں، کیونکہ ترقی یافتہ معاشرہ تربیت یافتہ انسانوں سے بنتا ہے، اور تربیت یافتہ انسان خاندان سے بنتا ہے، اور رشتے انسان نبھاتے ہیں فرشتے نہیں، بس معاشرے کا بہترین انسان بننے کی کوشش کریں۔