کراچی کا پانی کراچی کی امانت ہے

821

کراچی دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ملک کا صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی اور اقتصادی مرکز ہے۔ دریائے سندھ کے دہانے کی شمالی حد پر واقع ہونے کے باوجود یہاں کے شہری پانی کو ترس رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کراچی کے چند علاقے ایسے ہیں جہاں آج کے دور میں بھی صاف پانی کا ذریعہ ماشکی اور مشکیزے ہیں۔ ایک طرف کراچی کے لوگوں کے لیے پانی کا حصول روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے دوسری طرف پانی مافیا اور ٹینکر مافیا نے حکومت سے ملی بھگت کے ذریعے اپنے قدم پورے شہر میں جما لیے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ حکومتی جماعتیں، قانون نافذ کرنے والے اہلکار، واٹر بورڈ سبھی شہر کے پانی کے مسائل پر منافع خوری میں شریک ہیں۔ پانی کبھی یہاں بھی نلکوں میں آتا تھا۔ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں بھی سپلائی لائنوں کے ذریعے گھروں میں میٹھا پانی آتا تھا جو پینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا اب تو پینے کے لیے الگ پانی خریدنا پڑتا ہے اور استعمال کرنے کے لیے الگ پانی خریدنا پڑتا ہے، پھر بھی پانی کا معیار کا مسئلہ ہی رہتا ہے۔ گھروں میں نلکوں میں پانی نہیں آتا لیکن ٹینکر مافیا کے پاس پانی خوب آتا ہے۔ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کراچی میں عوام کے ساتھ لوٹ مار کرنے والے گروہ کا حصہ ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانی کے ٹینکر کے کاروبار میں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم ساڑھے 6 کروڑ کا پانی ٹینکروں کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے جس کی مقدار کم و بیش 32 ملین گیلن یومیہ ہے۔ سروے میں دیے گئے یہ اعدادو شمار ستمبر میں صرف 6 قانونی ہائیڈرنٹس کو مدنظر رکھ کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی تعداد نامعلوم ہے۔

سرکاری ذریعے سے کراچی کے پانی کی لوٹ مار تو ہو ہی رہی ہے غیر قانونی ہائیڈرنٹس بھی خوب پھل پھول رہے ہیں کیونکہ یہ مال کمانے کا آسان ذریعہ ہے۔ بہت سے ہائیڈرنٹس ایسے بھی ہیں جو زیر زمین پانی نکالتے ہیں، یہ ایک ایسا عمل ہے جو کراچی کے لیے ماحولیاتی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ نیب کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق شہر بھر کے واٹر بورڈ کی پائپ لائنوں سے میٹھا پانی چوری کرنے والے کم از کم 86 غیر قانونی ہائیڈرنٹس موجود ہیں۔ یہ اکثر چار دیواری کے اندر ہوتے ہیں، جیسے ہی پائپ لائن میں پانی چھوڑا جاتا ہے تو ہائیڈرنٹ حرکت میں آجاتے ہیں، پانی کا رُخ ان کے بڑے بڑے زیر زمین ٹینکوں کی جانب موڑ دیا جاتا ہے جہاں سے ٹینکروں کے ذریعے اہل کراچی کو فروخت کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہر اعلیٰ بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت ہی سے یہ سارا کام کیا جاتا ہے، یہ مجرم ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں، ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ مشہور سماجی کارکن پروین رحمن کو بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا ان کے قتل کی تحقیق کرنے والی جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مجرم پانی بیچنے والے مافیا کے طاقتور افراد تھے۔ جن کے تعلقات اور وابستگی کراچی کے جرائم پیشہ عناصر سے تھے۔ کراچی کو ملنے والا پانی لیکج کی وجہ سے ضائع بھی ہوتا ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’شہر کا زیر زمین پائپ لائن کا نظام فرسودہ ہوچکا ہے، پچھلے 25 سال سے پانی کی کوئی پائپ لائن نہیں ڈالی گئی جبکہ شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے‘‘۔ کراچی کو دھابیجی اور حب ندی سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ واٹر کمیشن نے واضح طور پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کراچی کو مہیا کیا جانے والے پانی میں سے 30 فی صد پانی بوسیدہ اور خراب سپلائی لائنوں اور غیر قانونی ہائیڈرنٹ کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے۔ پچھلے ماہ مون سون کی بارشوں نے حب ڈیم کو پانی سے لبالب بھر دیا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ پانی کا یہ ذخیرہ کراچی کے ساتھ بلوچستان کو آئندہ تین سال تک پانی فراہم کرنے کے لیے کافی ہوگا لیکن اس کے باوجود کراچی کے عوام پانی کے لیے ترستے رہے۔ دوسری طرف اسپل وے سے گرنے والا پانی بحیرہ عرب میں شامل ہوتا رہا۔ حب ندی کی مرمت کے لیے کافی عرصے سے مطالبہ کیا جارہا تھا۔ لیکن اس کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا، اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ حب ڈیم سے پانی فراہم کرنے والی نہر میں شگاف پڑ گیا ہے۔ لہٰذا کراچی کو پانی کی فراہمی شگاف بند کرنے تک بند کردی گئی ہے۔ اس صورت حال میں ٹینکر مافیا کی اور چاندی ہوجائے گی۔ پانی کی قلت کے باعث پانی کی قیمت کو دوگنا اور تین گنا کرکے فروخت کریں گے۔ پانی کا ضیاع اور ہائیڈرنٹ کی غیر قانونی سرگرمیاں کراچی کے ماحول کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے بھی تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں۔

محتاط اندازے کے مطابق 7 ہزار ٹینکر روزانہ ایک لاکھ 40 ہزار کلو میٹر کے علاقے میں اپنا آپریشن کرتے ہیں۔ جس سے 23 ہزار لیٹر کے قریب ڈیزل استعمال ہوتا ہے۔ اس سے خطرناک فضائی آلودگی پھیلتی ہے۔ ڈیزل کی مد میں کوئی اندازاً 7 لاکھ ڈالر ماہانہ کی لاگت آتی ہے۔ مرتضیٰ وہاب ماضی میں ایڈمنسٹریٹر تھے اور اب میئر ہیں۔ کہتے ہیں کہ پانی کراچی کے عوام کی امانت ہے لیکن اس امانت پر پہلے بھی خیانت کی گئی اور اب بھی کی جارہی ہے۔ مرتضیٰ وہاب اور ان کی پارٹی کراچی کے عوام کو پانی کے لیے ترسا کر روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں کما رہے ہیں۔