سابق سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے 77ویں یوم آزادی کے دن ملک کے آٹھویں نگران وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔ ان کی حلف برداری کی تقریب ایوان صدر اسلام آباد میں منعقد ہوئی جہاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان سے حلف لیا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ نئے وزیر اعظم نے حلف اٹھانے سے پہلے سینیٹ اور اپنی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی سے استعفا دے دیا ہے جس کا مقصد بطور نگران وزیر اعظم عام انتخابات میں غیر جانبدار رہنا ہے۔ سیاسی حلقوں نے ان کے اس اقدام کو سراہاہے کیونکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ اپنی پارٹی اور سینیٹ سے مستعفی ہونے کے حوالے سے ان پر کوئی قانونی یا آئینی پابندی نہیں تھی لیکن انہوں نے اخلاقی ذمے داری سمجھ کر خود کو حقیقی معنوں میں غیرجانبدار ثابت کرنے کی غرض سے ان دونوں فورموں سے استعفا دیا ہے۔ واضح رہے کہ انوار الحق کاکڑ پاکستان کے بلوچستان سے نامزد ہونے والے دوسرے البتہ بطور پختون بلوچستان سے پہلے نگران وزیر اعظم ہیں، یہ بات دلچسپ ہے کہ چند روز پہلے تک نگران وزیر اعظم کے لیے جن ڈیڑھ درجن سے زائد افراد کے نام لیے جارہے تھے ان میں انوارالحق کاکڑ کا نام شامل نہیں تھا۔ نگران وزیر اعظم کے حوالے اب تک جو نام لیے جارہے تھے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے اور کچھ کا سول بیوروکریسی اور عدلیہ سے تھا تاہم اسلام آباد کے ایک معتبر ذریعے نے ایک روز قبل انکشاف کیا تھا کہ نگراں پی ایم کے حوالے سے شہباز شریف سرپرائز دے سکتے ہیں اور پھر ایک روز میں شہباز شریف نے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام تجویز کر کے واقعی ایک بڑا سرپرائز دیدیا۔ یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ انوارالحق کاکڑ پاکستان کے اب تک کے کم عمر ترین نگران وزیراعظم ہیں ان کے والد احتشام الحق کاکڑنے اپنی کیریئرکا آغازبطور تحصیلدار کیا تھا جس کے بعد وہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائزرہے، انوارالحق کاکڑ کے دادا قیام پاکستان سے قبل خان آف قلات کے معالج (فزیشن) کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔
سیاسی اعتبار سے انوار الحق کاکڑ کا شمار بلوچستان عوامی پارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ راتوں رات وجود میں آنے والی اس نوزائیدہ پارٹی نے بلوچستان میں دہائیوں سے سیاست کرنے والی نامی گرامی جماعتوں کو لتھاڑ کر جب 2018 میں بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم کی اور مرکز میں یہ جماعت پی ٹی آئی کی ہمرکاب بنی تو اسے بعض حلقوں کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار کے طعنے بھی سننے پڑے لیکن سینیٹ اور بلوچستان میں اپنی کارکردگی سے یہ جماعت کافی حد تک نہ صرف یہ داغ دھونے میں کامیاب رہی بلکہ اب اس کا شمار بلوچستان کی مقبول جماعتوں میں ہوتا ہے جس کا واضح ثبوت اس پارٹی سے وابستہ انوار الحق کاکڑ کا ملک کا آٹھواں نگران وزیر اعظم بننا ہے جو اگر ایک طرف شورش زدہ بلوچستان کے لیے خوش آئند ہے تو دوسری جانب یہ ایک نوزائیدہ پارٹی (باپ) کے لیے بھی خوش کن امر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں شورش کے بعد جس صورتحال نے جنم لیا اس میں انوارالحق کاکڑ ریاستی بیانیے کی بھرپور وکالت کرتے رہے اور وہ ریاستی بیانیے کے حوالے سے تمام تر دبائو کے باوجود توانا آواز ثابت ہوئے۔
انوارالحق کاکڑ 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ ملک کے علمی، ادبی طبقات اور سماجی تعلقات کے حلقوں کے لیے انوار الحق کاکڑ معروف شناخت کے ساتھ صف اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے دھیمے مزاج اور بلوچستان کے سماجی و سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لیے مدلل اور قابل عمل تجاویز کو ہمیشہ قومی حلقوں میں سراہا گیا۔ انوار الحق کاکڑ بلوچستان کی سیاست میں پہلی بار 2008 میں اس وقت منظر عام پر آئے تھے جب انہوں نے ق لیگ کے ٹکٹ پر کوئٹہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا جس میں انہیں کامیابی نہیں مل سکی تھی اس کے بعد وہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے اور کافی وقت تک پارٹی میں متحرک رہے، 2015 سے 2017 تک بلوچستان حکومت کے ترجمان رہے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے چیئرمین اور وائس آف بلوچستان کے نام سے ایک این جی او بھی چلاتے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے، اچھی سوجھ بوجھ اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہیں، سینیٹ کی خارجہ تعلقات اور دفاعی امور کمیٹی میں بھی بہترین تجاویز کے ساتھ قومی مسائل پر گفتگو میں شامل رہے ہیں۔ فلاسفی، انگلش لٹریچر، فارسی، اردو، پشتو ادب پر عبور رکھتے ہیں۔ سی پیک کے ایک بڑے سپورٹر مانے جاتے ہیں جب کہ وہ مسنگ پرسنز، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے معاملات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں لہٰذا توقع ہے کہ ان مسائل کے حل میں ان کا تجربہ ریاست کے لیے معاون ثابت ہوگا۔