پرچے جانچنے والوں کی مرعوبیت

1817

ہم نے 2007 میں سول سروس کا امتحان دیا ہمارے پاس تیاری کے لیے پانچ دن تھے 12 پرچے دینے تھے صرف سائنس اور ہند پاکستان کی تاریخ کے پرچوں کی تیاری کی سوچا کہ باقی پرچے اپنی معلومات کے بل پر پاس کر لیں گے، ہم سائنس کے پرچے میں فیل ہو گئے باقی پرچوں میں 50 ،55 کی اوسط سے نمبر لے لیے اسلامیات میں 55 نمبر آگئے حالانکہ کچھ بھی نہیں پڑھا تھا۔

2010 میں دوبارہ امتحان دینے کی ٹھانی اور بھرپور تیاری کر کے امتحان دیا اسلامیات کی بھی کئی کتابیں پڑھ کر امتحان دیا لیکن سوچا کہ اس دفعہ اسلامیات کا پرچہ اردو میں لکھیں گے اسلامیات میں فیل ہو گئے صرف 36 نمبر ملے۔ ایک سرکاری افسر سے ملاقات ہوئی انہیں بتایا تو انہوں نے کہا آپ نے اسلامیات کا پرچہ اردو میں دے کر غلطی کی اگر آپ انگریزی میں دیتے تو بڑی آسانی سے پاس ہو جاتے جو لوگ پیپر چیک کرتے ہیں وہ انگریزی سے مرعوب ہوتے ہیں اردو تو ان کے گھر کی لونڈی ہوتی ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب حکومت انگریزی پڑھانے والے قابل اساتذہ کا بندوبست نہیں کر سکتی تو وہ سول سروس کے 11 پرچے لازماً انگریزی میں کیوں لیتی ہے۔ ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ انگریزی ضروری ہے لیکن یہ بھی تو کیا جا سکتا ہے کہ مادری زبانوں میں یا اردو میں پرچے لیے جائیں اور جو ذہین بچے سارے پرچے پاس کر کے آپ کے پاس آئیں آپ انہیں ایک ڈیڑھ سال میں انگریزی پڑھا دیں ذہین ہوں گے سیکھ لیں گے۔ بجائے اس کے کہ آپ محض انگریزی کی بنیاد پر اوسط درجے کے لوگوں کو کامیاب کریں اور انہیں ہمارے سروں پر مسلط کر دیں اگلے 25؍ 30 سال کے لیے اور وہ محض انگریزی کی بنیاد پر اپنے آپ کو معاشرے کی cream سمجھتے رہیں اور باقی معاشرے کے ساتھ بھیڑ بکری والا سلوک کریں۔ موجودہ نظام کی وجہ سے وہ لوگ جو مہنگے نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں بڑی آسانی سے سول سروس کا امتحان پاس کر لیتے ہیں کچھ ہی ایسے ہوتے ہیں جو سرکاری اور چھوٹے موٹے پرائیویٹ اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہو جائیں۔

کچھ جامعہ کراچی کے بارے میں: جامعہ کراچی میں بی اے کی تعلیم کے دوران ہمارے ایک دوست نے سیاسیات کا ایک ٹیسٹ دیا ایک سوال میں سیاسیات کے بڑے فلسفہ نگاروں کے نام پوچھے گئے تھے ہمارے دوست کو ایک نام بھی نہیں معلوم تھا اس نے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام لکھ دیے خیر سے وہ پاس ہو گیا ٹیچر وہ محترمہ تھیں جو بعد میں آرٹس فیکلٹی کی ڈین رہیں اور یہ بھی اطلاعات تھیں کہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر بننے کی دوڑ میں بھی شامل تھیں شکر ہے کہ اس دوڑ میں وہ ناکام ہوگئیں ورنہ پتا نہیں جامعہ کراچی کا معیار تعلیم مزید کتنا نیچے جاتا ایک سمسٹر میں 42 یا 44 کلاسیں پڑھانی ہوتی ہیں محترمہ 10 ، 12 پڑھاتی تھیں۔
مشفق احمد